وزیر اعظم کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ ملنے کے بعد اپوزیشن کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچہ ہےکہ وہ پارلیمنٹ میں آکر پارلیمانی سیا ست کی مضبوطی کے لیے تعمیری کام کرے۔ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے انتخاب سے پاکستان پیپلز پارٹی اورپاکستان مسلم لیگ (ن) میں پیدا ہونے والی خلیج پُر کرنا مشکل ہے ،پی ڈی ایم فکری اتحاد نہیںبلکہ نظریۂ ضرورت تھا۔چیئر مین سینیٹ کے انتخاب کے بعد نظریۂ ضرورت ختم ہو کر رہ گیا ہے۔اپوزیشن کی دونوں بڑی سیا سی جما عتوں کی طرف سے آئندہ چند دنوں میں ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازی پر اُتر آنے کے قوی امکانات ہیں۔
وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کو مل بیٹھنے کی دعوت دے چکے ہیںمگر اس مل بیٹھنے میں عوام کا مستقبل تابناک بنانے کے ایجنڈے پر تو بات چیت ہو سکتی ہے مگر کرپٹ عنا صر کو عدالتوںکے رحم و کرم کا ہی سہارا لینا ہو گا۔عمران خان کی حکومت کسی کو کوئی این آر او نہ دینے پر ڈٹی رہے گی۔2018کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کے باوجود سیا سی جما عتوں نے پارلیمنٹ میں جانے کا فیصلہ کر کے پارلیمانی جمہوریت کے حق میں ووٹ دیا تھا حالانکہ یو جے آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن پہلے دن ہی سے موجودہ پارلیمنٹ کے حق میں نہ تھے، ان کا موقف تھا کہ نو منتخب ارکان حلف ہی نہ اٹھائیں مگر پی پی پی اور (ن) لیگ کے نو منتخب لوگوں نے اس فیصلے کی توثیق نہیں کی۔اپوزیشن عمران خان کی حکومت کو تو سلیکٹیڈ کہہ کر ہٹانے پر کمر بستہ ہو گئی مگر آج تک یہ حکمت عملی سامنے نہ آسکی کہ مسئلے کا حل کیا ہے اور اس حل پر عمل در آمد کس کی ذمہ داری ہو گی؟
اس ملک کےسیا سی دانشور یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ قیام پاکستان سے اب تک ہر سیاستدان نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کی ہے مگر عملاً ان ہی کا تابع فرمان ثا بت ہوا ہے ،ہر کسی نے اقتدار میں آنے کے لیے ان ہی کا کندھا استعمال کیا ہے اور اب بھی عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے لیے ان ہی پر زور دے رہے ہیں،امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق تو دیدہ دلیری سے کہہ رہے ہیں کہ پی ڈی ایم ،حکمران جما عت پی ٹی آئی ،(ن) لیگ اور پی پی پی سب اسٹیبلشمنٹ کی جما عتیں ہیں، ان کاا ختلاف صرف دودھ کے اس فیڈر پر ہے جو ابھی عمران خان کے منہ میں ہےحالانکہ سیا سی گروُ یہ کہنے سے گریز نہیں کرتے کہ ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ سینیٹر سراج الحق کی اپنی جما عت بھی ڈکٹیٹر کی کابینہ کا حصہ رہی ہے ،سیا سی حلقوں کا دعویٰ ہےکہ پی ڈی ایم میں جو توڑ پھوڑ شروع ہوئی ہے ،اس کا انجام بھی سیا سی جماعتوں کو ایک بار پھر حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر ’’ایشوز‘‘ کی نشاندہی اور ان کے حل کی طرف جانا ہو گا۔
بیشتر سیا سی جما عتوں کے کارکنوں کو تو اس بات کی آگاہی ہی نہیں کہ مسائل کیا ہیں مگر عوام مسائل کے حل کے لیے سیا ستدانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں،جوآپس میں لڑ کر عوام کو ٹرک کی’’ نئی بتی‘‘ کے پیچھے لگا دیتےہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی بے حسی اور عالمی حالات سے بے خبری کا یہ حال ہےکہ حکمران جما عت پی ٹی آئی سمیت پاکستان کی کسی سیاسی جما عت نے ’’ کورونا وائرس‘‘ جیسےعالمی مسئلے کو نہ اہمیت دی اور نہ ہی اس سے بچا ئو کے لیے عوام میں شعور اجا گر کرنے کی ضرورت محسوس کی بلکہ حکومت کے خلاف احتجاجی جلسے جلوس کر کے پھیلا ئو کے اسباب بنتے رہے حالانکہ اتنا تو سب سیاستدان جانتے ہیں کہ کورونا مرض کسی کی سیا سی وا بستگی نہیں پوچھے گا بلکہ ہر کسی کو بلا تفریق اپنی لپیٹ میں لے لے گا،صورتحال خراب ہو چکی ہے،اسپتالوں میں جگہ نہیں، اب بھی وقت ہے کہ سیا سی جماعتیں اپنی قومی ذمہ داری کو سمجھیںاورماضی قریب میں انہوں نے جس غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔
اس کے ازالہ کے لیے آگے بڑھیں، اپنے عہدیداروں کو کورونا سے نمٹنے کے لیےسیا سی پلیٹ فارم پر متحرک کریں ، جس طرح شہریوں سے ووٹ مانگتے ہو ئے شرم محسوس نہیں کرتے اسی طرح یونین کونسل کی سطح پر گلی محلوں میں یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کسی گھر میں کورونا کا کوئی مریض تو نہیں، گھر میں کھانے پینے کے اسباب موجود ہیں، سیا سی جماعتیں کورونا سے بچا ئو مہم چلا کر ایک دوسرے سے مقابلہ کریں، سیا سی جما عتوں نے عوام کو کورونا سے بچا نے میں کوئی موثر کردار ادا کیا تو آئندہ انتخابات میں عوام اسی کو ووٹ دیں گے جو ان کی زندگیاں بچانے میں متحرک نظر آئے گا،پاکستان مسلم لیگ (ن) کراچی میں این اے 249 کے ضمنی انتخاب میں مفتاح اسما عیل کو اتار چکی ہے مگر ابھی تک اسے پی پی پی کی حمایت کی یقین دہانی نہیں مل سکی۔
سیاسی حلقوں کا دعویٰ ہےکہ حکمران جما عت اس حلقے سے ضمنی انتخابات میں کامیاب نہیں ہو گی ،پی ڈی ایم کی بیشتر جما عتیں (ن) لیگ کے امیدوار کی کامیابی کے لیے متحرک ہیںجبکہ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہےکہ کراچی کے عوام کی تمام امیدیں حکمران جماعت کے ساتھ ہیں،جس طرح پی ڈی ایم سینیٹ میں انتخاب پر بکھر گیا ہے اسی طرح ضمنی انتخاب میں انجام سامنے آیا گیا ،وفاقی دارلحکومت میں موجود سیا سی حلقے جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کے اس سوال پر غور شروع کر چکے ہیںکہ امریکہ، برطانیہ اور بھارت جیسے ممالک میں کبھی مارشل لا ء کیوں نہیں آیا۔