مشرقی معاشرے میں جہاں بہن بیٹی اور بہو کے رشتے کے تقدس کی نظیر ملنا مشکل اور بیوی کی شوہر اور بچوں کے لیے قربانیاں ضرب المثل سمجھی جاتی تھیں، اسی طرح شوہر بھی اپنی بیوی اور بچوں کے صحرا میں گھنی چھاؤں کا کردار ادا کرتے نظر آتے تھے۔ تاہم بدقسمتی سے فی زمانہ یہ اقدار ہم سے چھوٹتی جارہی ہیں۔ ماں اور باپ کے مقدس رشتے مفادات کی بھینٹ چڑھتے نظر آرہے، جب کہ ساس سسر جوکہ ماں باپ کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان رشتوں میں بھی دوریوں اور نہ پٹنے والے فاصلے پیدا ہورہے ہیں، خونی رشتوں میں جو ایثار اور قربانی پائی جاتی تھی، اس کی جگہ مفاد پرستی اور مطلب براری نے لے لی ہے، جب کہ تحمل اور برداشت نہ ہونے کے برابر ہوگیا ہے۔
جس کی وجہ سے معمولی باتوں پر قتل وغارت گری عام بات بن گئی ہے، جب کہ بدقسمتی پہلے معاملہ صرف دیہات کا تھا جہاں معمولی باتوں پر خواتین پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے اور بات بے بات پر قتل کرنا اور کاری کاالزام لگا کر قصہ ختم کردیا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں ماضی قریب میں ایک قصہ سابق ممبر صوبائی اسمبلی سید امداد محمد شاہ نے یُوں سنایا تھا کہ سردیوں کی رات تھی، نہری پانی کی تقسیم پر دو ہاریوں میں تکرار اور تلخ کلامی کے بعد لڑائی ہوگئی۔
دونوں کے جوان خون نے جوش کے دوران ہوش کو بھلا دیا اور ایک دوسرے پر کلہاڑی کا ایسا وار کیا جو اس کی زندگی تمام کرگیا، لیکن اب کیا کرے لاش سامنے دیکھ کر اس کے شیطانی دماغ نے کام کیا اور وہ اپنی بوڑھی ماں کو جو کہ نابینا بھی تھی، کندھے پر لاش لےکر واٹر کورس پر پہنچا، ماں پوچھتی رہی کہ بیٹے مجھے کہاں لے جارہے ہو اور یہ آواز گاؤں کے افراد نے بھی رات کے سناٹے میں سنی تھی ، لیکن شیطان نے اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلی تھی۔ اس نے واٹر کورس پر لاش کے ساتھ ماں کو پٹخا اور ڈنڈوں کے وار کرکے ماں کو قتل کرکے کارو کاری کا ڈراما رچایا، لیکن اس کی کہانی چند منٹ میں فیل ہوگئی اور گاؤں کے افراد کی گواہی نے اس بدبخت کو تختہ دار پر پہنچا کر و اصل جہنم کیا۔
تاہم یہ کہانی کوئی نئی بات نہیں، اس طرح کے واقعات کم وبیش روزانہ کی بنیاد پر اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا و سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہتے اور دیکھنے پڑھنے والوں کے لیے سوہان روح بنتے ہیں۔ اسی طرح کا واقعہ گولیمار کے علاقے میں پیش آیا، جہاں شوہر نے رات میں سوتے میں بیوی کا دوپٹّے سے گلا گھنٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ پولیس کے مطابق اویس دھاریجو نے اپنی بیوی بیس سالہ اقراء کو قتل کرکے فرار ہوگیا۔ اس سلسلے میں مقتولہ کے والد اشرف دھاریجو نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ اویس اس کا بھتیجا تھا اور اس نے اپنی بیٹی اقراء کا اس سے بیاہ کرکے اس کو گھر داماد کرکے گھر میں ہی پرچون کی دوکان بھی کھلوا دی تھی، تاکہ اس کا روزگار بھی چلتا رہے اور گھر کو بھی سنبھالتا رہے۔
اشرف دھاریجو نے بیان میں کہا کہ اس کو علم نہ تھا کہ دیہات سے آنے والا کند ذہن انسان میری بیٹی پر شک کرے گا۔ اس نے رات کو سوتے میں بیس سالہ اقراء کا اس کے دوپٹّے سے گلہ گھونٹ کر اس کو قتل کیا اور فرار ہونے کے بعد فجر کے وقت مجھے فون کرکے کہا کہ میں نے اقراء کو قتل کردیا ہے۔ ہم جیسے ہی ان کے کمرے میں پہنچے تو اقراء مری پڑی تھی، پولیس نے ضروری کارروائی کرکے نعش حوالے کردی، جب کہ ملزم تاحال فرار ہے۔ ادھر شوہر کے اپنے بھائی سے مل کر سسر کو ہلاک کرنے کے ملزمان کو عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج عبدالحفیظ میتلو کی عدالت نے قتل کا جرم ثابت ہونے پر دو بھائیوں ارشاد اجن اور نوید اجن کو پھانسی اور دودولاکھ روپیہ کی سزا سنائی ہے۔ استغاثہ کے مطابق ملزم ارشاد جن کی شادی محمد پناہ کی بیٹی مسمات ممتاز کے ہمراہ ہوئی تھی، جب کہ اس کی اپنی بیوی کو مار پیٹ سے سسرالیوں سے تعلقات خراب تھا، وقوعہ کے ارشاد اپنے بھائی کے ہمراہ اپنی بیوی کو لینے جام صاحب کے نزدیک اپنے سسر کے گاؤں پہنچا، جہاں اس کی اپنے سسر سے تلخ ہوئی اور بعد ازاں ضرب لگنے اس کا کام تمام ہوا، ادھر بارہ جولائی 2020 کو ہونے والے اس وا قعے کے بعد پولیس نے اپنا کام کیا اور جرم ثابت ہونے پر عدالت نے ملزم ارشاد اور اس کے بھائی نوید کو پھانسی اور دو دو لاکھ روپیہ جرمانہ کی سزاسنائی ہے۔
اس بارے میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ وکلاء کے دلائل کے دوران ملزم ارشاد نے اقرار کیا کہ وہ اپنی بیوی مسمات ممتاز کو اس کے ہمراہ نہ بھیجنے پر ناخوش تھا اور اپنے بھائی کے ہمراہ بیوی کو سسر سے جو کہ اس رشتے سے پہلے بھی قریبی رشتے دار بھی تھے، گھر میں بیٹھ کر مسئلہ سلجھانے کے لیے آئے تھے، تلخ کلامی اور جھگڑا ہوگیا جس کے نتیجے میں اس کا سسر چوٹ لگنے سے ہلاک ہوگیا اور یُوں اس قضائی کا ڈراپ سین سسر کی ہلاکت اور ان کی قسمت میں جیل اور پھانسی لکھی گئی۔
ادھر دوسری جانب جہاں تک پسند کی شادی کا تعلق ہے تو اس کے بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں۔ اس سلسلے میں سئنیر وکیل محمد حسین آرائیں کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ کورٹ سے خلع کے کیسوں کی تعداد ستر تھی جو کہ پسند کی شادی کرنے والی خواتین کی جانب سے ان کے شوہروں کے خلاف دائر کی گئی تھیں۔ ان میں شکوہ یہی کیا گیا کہ ان کے حقوق نہیں ادا کیے جارہے ہیں، جب کہ ایسی درخواستیں بھی آئیں، جن میں کہا گیا پسند کی شادی کے دو چار ماہ بعد ان کے شوہر نے یہ الزام لگا کر کہ اس کے ساتھ آنے سے پہلے اس نے نہ جانے کتنے لوگوں سے عشق کیا ہوگا، گھر سے نکال دیا، جب کہ پسند کی شادی کی صورت میں اس پر ماں باپ بہن بھائی کے دروازے پہلے ہی بند ہوچکے اور اب دارلامان کے علاوہ کو ئی سر چھپانے کا ٹھکانہ نہ رہا تھا۔
جب کہ ان خواتین کو جو کہ مردوں کے بہکاوے پھسلا وے میں آکر گھر کی چار دیواری کو پھلانگ چکی تھیں۔ اب واپسی کے تمام راستے مسدود اور گمنامی کی زندگی مقدر بن چکی تھی، بہر حال متکرہ بالا واقعات سے یہ بات اظہر من الشمش ہو چکی ہے کہ سب سے زیادہ نقصان میں صنف نازک ہی رہی ہے، چاہے گھریلو لڑائی جھگڑے کے معاملات ہوں یا پسند کی شادی ، جیسے فیصلے ہوں اس لیے بزرگوں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ بکھرتے ہوئے خاندانی نظام کو سمیٹنے کی کوسش کریں، ایسا نہ ہو کہ یورپ کی طرح معاشرے کا دانش ور ،مزہبی اور باشعور طبقہ خاندانی نظام کے بکھرنے اور مادر پدر آزادی کی صداؤں کے موقع پر منہ میں گھنگیاں ڈال کر بیٹھ رہے اور اب اس کا نتیجہ بھگت رہا ہے، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ دینی طبقہ آگے بڑھ کر اس ڈولتی کشتی کا سہارا بنےاور ممبر و محراب سے طبقاتی کشمکش اور تناؤ کو کم کرنے میں مدد مل سکے۔