نواز شریف صاحب تیسری بار وزیراعظم بنے۔ واقعی ایک تاریخ بنی، لیکن اہم تر بات یہ ہے کہ وہ اگلے دنوں میں کیا کریں گے۔ مسائل پوشیدہ نہیں بہت کھلے ہوئے ہیں، خاصے پرانے بھی ہیں۔ اب تو انہیں سارا ملک سمجھنے لگا ہے۔ بدامنی (خاص طور سے کراچی کی مسلسل بدامنی) بیماری، بے روزگاری، مستقبل کو نہ دیکھنے اور اس پر نہ سوچنے کی عادت۔ یہ سب، سب کو معلوم ہے۔ پہلے بھی معلوم تھا مگر ان کا کوئی حل اب تک نہیں آیا۔ حکومتیں آئیں، مزے کئے اور چلی گئیں۔ کیا اب بھی یہی ہونا ہے۔
نہیں یہ سب اب نہیں ہونا چاہئے۔ علامہ فرما گئے ہیں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
مگر ہمارے ہاں لگتا ہے تغیر نے نہ آنے کی قسم کھا لی ہے۔ مگر یہ کیسے ممکن ہے۔ تغیر تمام دنیا میں آتا ہے، آتا رہا ہے، ہمارے ہاں کیوں نہیں آئے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ آ رہا ہے، دھیرے دھیرے، اندر ہی اندر۔ ہاں یہ ناکافی ہے۔ یہ غیر رسمی ہے۔ کیا مطلب؟ مطلب یہ کہ ہمارے جیسے معاشرے میں تو اسے انقلاب در انقلاب کی صورت میں آتے رہنا چاہئے۔ اس کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ہائے ہائے بڑے میاں دو سو برس پہلے کیا بات کہہ گئے جو یہاں ایک قول مستقل بھی ہوتی ہے۔
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
نواز شریف صاحب جوان آدمی ہیں۔ تھوڑے بہت پڑھے لکھے بھی ہیں۔ محب وطن تو یقینی ہیں لیکن اپنے طبقاتی پس منظر کی وجہ سے کسی انقلابی اقدام کے لئے ”فٹ“ fit نہیں لگتے۔ ہاں فٹ ہو ضرور سکتے ہیں۔ یوں ہر زمانہ تبدیلی Change کا ہوتا ہے اور یہ زمانہ تو جلد سے جلد تر تبدیلی کا ہے۔ ہماری آج کی دنیا کافی دن سے ایک انقلابی دنیا بنی ہوئی ہے۔ جگہ جگہ طرح طرح کے انقلاب آ چکے ہیں۔ دنیا سے بادشاہت ختم ہوئے ایک زمانہ ہو گیا۔ (ہمارے مشرق وسطیٰ کے بادشاہ لوگ بھی اب ویسے طاقتور اور سوال و جواب سے آزاد بادشاہ یا امیر یا سلطان نہیں جیسے ہوتے تھے) مگر یہ سچ ہے کہ یہاں جو تھوڑی بہت تبدیلی ہوتی ہے وہ کسی انقلاب کی تعریف پر پوری نہیں اترتی۔ ہمارے ہاں اب بھی انتخابات میں بھی جو ”نمائندے“ منتخب ہوتے ہیں وہ دراصل اکثریتی مفادات کے نمائندے نہیں ہوتے حالانکہ بظاہر اکثریتی نمائندے نظر آتے ہیں۔
پھر کیا ہو؟ آزادی سے اب تک کے پس منظر میں کیا جواب دوں۔ باتیں بنانے کو اور بات ہے۔ کہہ دوں انقلاب، تو یہ نعرہ تو بہت دن سے لگ رہا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی انقلاب کا نعرہ لگاتی ہے۔ کامیابی پر انقلاب لانے کا دعویٰ کرتی ہے مگر کامیاب ہوتے ہوئے استحصال کی نمائندہ ہو جاتی ہے۔ یہ سب ہم1947ء سے برابر دیکھ رہے ہیں۔
نئے احکام؟
آج خبر چھپی ہے کہ وزیراعظم نے وفاقی اداروں کو سرکاری وسائل کے غیر ضروری استعمال سے روک دیا۔ ماشاء اللہ یعنی وفاقی ادارے سرکاری وسائل کا غیر ضروری استعمال کرتے ہوئے اب پائے گئے۔ اس سے پہلے پتہ نہیں تھا کہ وہ غیر ضروری استعمال کر رہے ہیں؟ ایسے استعمال سے کتنی مالیت کا نقصان ہو رہا تھا؟ اس کا بھی پتہ چلنا چاہئے۔ وزیراعظم کے پاس کوئی رپورٹ کوئی روداد ایسی ضرور ہو گی جس میں اس استعمال کی تفصیلات جمع کر کے پیش کی گئی ہیں۔ ان کا پتہ قوم کو بھی چلنا چاہئے۔ ہم نئے احکام کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ یہ مطالبہ ضرور کرینگے کہ اس غیر ضروری استعمال کی جو تفصیلات ہیں ان کا ایک خلاصہ شائع کروا دیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں دوسرے سوچنے اور لکھنے والے خواتین و حضرات اس مطالبے کی تحریری تائید کریں گے۔
تعزیتی اجلاس بیاد سید اظفر رضوی شہید
یہ متعلقہ سوسائٹی کی ماتمی قرارداد ہے۔
”پچھلے دنوں سٹی آنرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام سید اظفر رضوی شہید کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ مجھے عزیزی رضوان صدیقی نے اس مجلس میں شرکت کی دعوت دی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ علالت کے سبب اب گھر سے نکلنا بہت مشکل ہو گیا۔ میں نے معذرت کی تو رضوان صدیقی نے اصرار کیا کہ آپ ٹیلیفون کے ذریعہ چند جملے کہہ دیجئے۔ منتظمین اور اظفر رضوی کے گھر والوں کے لئے بڑے حوصلے کا سبب ہو گا۔ سید اظفر رضوی مجھے عزیز تھے۔ جس بے دردی سے ظالموں نے اس معصوم کو قتل کیا اس کا مجھے بہت دکھ پہنچا۔ میری خواہش تھی اس تعزیتی جلسہ میں، میں خود شریک ہو کر سوگوار خاندان سے اظہار تعزیت کروں مگر معالج اور گھر والوں نے اس کی اجازت نہیں دی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میرے لئے دیر تک اونچی آواز سے بولنا بھی مشکل تھا مگر رضوان صدیقی کے بے پناہ اصرار پر میں آمادہ ہو گیا۔
رات 9 بجے کے قریب مجھے بتایا گیا کہ تعزیتی اجلاس جاری ہے اور اس مجلس میں آفتاب احمد خان صدر انجمن ترقی اردو، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، سینیٹر عبدالحسیب خان، سرشار صدیقی، سید صفوان اللہ، خواجہ قطب الدین، پروفیسر ہارون رشید، پروفیسر مسعود شیخ اور بہت سے اہم لوگ موجود ہیں۔ میں نے ٹیلی فون پر تقریر کی، اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ سید اظفر رضوی شہر کے تعلیمی اور ادبی حلقوں میں بے حد فعال و متحرک تھے۔ انجمن ترقی اردو میں میرے معاون تھے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ انہوں نے انجمن کی بڑی خدمت کی۔ ڈیڑھ دو سال پہلے جب انہوں نے انجمن کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو انجمن کو بہت سے مسائل کا سامنا تھا لیکن شب و روز محنت اور اخلاص کے ساتھ اظفر رضوی نے انجمن کو خاصا مستحکم ادارہ بنا دیا۔ انہوں نے بغیر کسی معاوضے کے بے لوث کام کیا۔ اظفر رضوی کوئی بڑے ادیب و شاعر نہ تھے مگر ادب کے فروغ اور ادیب و شاعروں کی معاونت کرتے تھے۔
میں نے پچھلے ہفتہ اپنے کالم میں بہت اختصار سے اظفر رضوی کے بہیمانہ قتل کے بارے میں لکھا تھا۔ غم بہت تازہ تھا، وہ تو خیر اب بھی ہے کہ واقعی وہ پیار کرنے کے لائق تھا۔ اظفر رضوی نے مشرقی پاکستان ہی میں ہوش سنبھالا۔ ان کے والد ڈھاکہ میں ڈپٹی کمشنر رہے تھے۔ عظیم پور انگلش میڈیم اسکول سے انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور گورنمنٹ ہائی اسکول ڈھاکہ سے انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا لیکن سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ کراچی آ گئے۔ یہاں آ کر ٹیوشن سینٹر قائم کیا ۔ پھر کئی اسکول اور کالج قائم کئے۔ نوجوانوں سے انہیں بہت محبت تھی۔ انہوں نے نوجوانوں کی ایک اسمبلی بھی قائم کی تھی۔ ہر ماہ اس کا اجلاس ہوتا ہے۔ اصل میں انہوں نے باقاعدگی سے طلبا و طالبات کے درمیان تقریری مقابلے منعقد کرائے تاکہ نئی نسل میں اپنے مافی الضمیر سے اظہار کا بہتر سلیقہ پیدا ہو۔ وہ شہر کی متعدد ادبی اور سماجی تنظیموں سے وابستہ تھے۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کی سینڈیکٹ کمیٹی کے رکن بھی رہے، بہت خلیق اور ملنسار آدمی تھے۔
کراچی میں برسوں سے یہی سلسلہ جاری ہے مگر اب یوں لگتا ہے کہ علم دشمنوں نے پڑھے لکھے لوگوں کو اپنا ہدف بنا لیا ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ اس قتل عام اور دہشت گردی کو کیسے روکا جائے۔ حکومتوں کی بے حسی کا تو سب کو اندازہ ہے لیکن ہمیں کچھ کرنا ہے اور کوشش کر کے متحد ہو کر اس شہر ویراں کو امن کا گہوارہ بنانا ہے۔
میں آخر میں منتظمین کو خاص طور پر مظہر خان، اسلم خان اور طارق نصیر جنہوں نے بڑے اخلاص سے اس تعزیتی اجلاس کا اہتمام کیا ہے، ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ جو لوگ کراچی میں علمی، ادبی اور سماجی تقاریب منعقد کرتے ہیں اللہ انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔