• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ چند برسوں میں پاکستان کے ساتھ جو ہوا اور جو ہوتا چلا آ رہا ہے اس حوالے سے یہ جاننا ضروری ہے کہ وطن عزیز کو ان حالات تک پہنچانے میں عام لوگوں کا کیا کردار رہا ہے اور کیا انہوں نے ان مشکل حالات کا مقابلہ کرنے میں کوئی اخلاقی پوزیشن لی؟ ان حالات میں جہاں کئی دیگر عوامل بھی شامل ہیں وہاں ایسا کرنے سے ہی اس سمت کی نشاندہی ہوگی جس طرف ملک بڑھ رہا ہو اور جن کی بدولت عوام کی تقدیر بھی تحریر ہو رہی ہو۔ ماضی میں غلط کو صحیح سے علیحدہ کرنے والی لکیروں کو ختم کرنے کے لئے بہت کچھ کیا گیا۔ حتیٰ کہ آج اس کی کوئی حقیقت یا حیثیت ہی نہیں رہی بلکہ بہت سی طاقتیں ان لکیروں کو مکمل مٹا دینے کے لئے برسرپیکار نظر آتی ہیں۔ ان محرکات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ توقع رکھنا کہ شاید ہم ان حالات پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں محض ایک خواب ہی لگتا ہے۔ تباہی کے اس عمل کو آگے بڑھانے کے لئے خودساختہ جھوٹی کہانیاں گھڑی گئیں جنہوں نے معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا۔ اس سے انسان نہ صرف موجودہ مایوس کن حالات کے بارے میں خوفزدہ ہوجاتا ہے بلکہ لگتا ہے کہ ہم مایوسی کے رحجان میں گھر گئے ہیں اور جلد ہی اس عدم برداشت کے اندھیروں میں اتنا دفن ہو جائیں گے کہ ہمیں یہ احساس ہی نہیں رہے گا کہ ایک ایسی دنیا بھی بستی ہے جو خود فریبیوں سے بالاتر ہے۔

ملکی تقدیر اور عوامی جذبات سے کھیلنے والے سیاسی مسخروں کو جب ہر شام ٹی وی اسکرین پر تماشہ کرتے دیکھتا ہوں تو دل افسردہ ہو جاتا ہے اور آس پاس سے بیگانگی کا احساس پیدا ہونے لگتا ہے۔ جب بہت سارے لوگ رنگ رنگ کی بولیاں بولتے ہوئے اپنے سیاسی قائدین کی غلطیوں کا دفاع کرنے کی انتہائی گھٹیا کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں اور بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ ان کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں تو شدید کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے۔ شاید یہی سیاست کا فن ہے کہ لوگوں کو باور کروایا جائے کہ جو کچھ بھی ان لیڈروں نے کیا وہ عوامی فلاح وبہبود اور ملکی بہتری کے لئے ہی کیا گیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ترقی کے نام پر ریاستی وسائل کا استعمال کبھی بھی ان کی بہتری کے لئے نہیں کیا گیا۔ غریب عوام کی بہتری کے لئے خرچ کی گئی رقم کی افسانوی کہانیوں کے پیچھے بھی ان سیاسی رہنمائوں کی ناجائز کمائی میں اضافہ کرنا مقصود ہوتا تھا جنہوں نے ہمیشہ اقتدار کے مزے لئے اور لوٹ کھسوٹ کے بعد چلتے بنے۔

دنیا میں کہیں بھی اگر ایسا ظلم روا رکھا جائے تو عوام بغاوت کر دیں۔ ایسا سب کچھ پاکستان میں کیوں نہیں ہوتا؟ لوگ ایسے جوڑ توڑ پر کیوں احتجاج نہیں کرتے؟۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ذلت آمیز سلوک کے عادی ہوچکے ہیں اور انہوں نے اسے ایک معمول کے طور پر قبول کرلیا ہے؟۔ عوام میں اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں احساس پیدا کرنے کے لئے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ عوام کو بتانا ہوگا کہ ملکی وسائل پر ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی اور کا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے جب سے عنان اقتدار سنبھالا ہے ،انہوں نے ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جن کا اولین مقصد غریب عوام کو ریاستی وسائل میں برابری کی بنیاد پر شراکت دار بنانا ہے۔ عالمی سطح پر پھیلنے والی کورونا وبا کے باوجود وزیراعظم عمران خان نے ریاستی نظام کو جاری وساری رکھنے، بے گھر افراد کے لئے پناہ گاہوں کا قیام، معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کے لئے گھروں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی اور احساس پروگرام کے ذریعے مالی امداد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ موجودہ حکومت نے ملک کے دور دراز پسماندہ علاقوں میں بھی ترقیاتی کام شروع کروائے جنہیں ماضی میں اشرافیہ نے ہمیشہ نظرانداز کئے رکھا۔ وزیراعظم عمران خان کے ان اقدامات کا بنیادی مقصد ان غریب لوگوں کو امداد فراہم کرنا ہے جو حکومتی تعاون کے مستحق ہیں۔ ماضی کے طرز حکمرانی اور پسماندہ طبقات کو مسلسل نظرانداز کرنے کے رویوں کو مدنظر رکھ کر جائزہ لیا جائے تو تحریک انصاف کی تبدیلی کی مثال واضح نظر آتی ہے۔ اگر لوگ اپنی قسمت کا خود فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ خاموش کیوں ہیں؟ وہ اپنے ساتھ روا رکھنے والے ماضی کے مقابلے میں حال کے حقائق کی غلط تشریح اور قول وفعل میں تضاد پر کیوں یقین کر لیتے ہیں؟ زمینی حقائق کی سمجھ بوجھ اور ملکی حالات کے حال و ماضی پر دسترس ہونے کے باوجود نجانے اینکرز حضرات جھوٹ پر مبنی پروگراموں کو اپنے ٹی وی شوز میں کیوں چلنے دیتے ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ مسخ شدہ تاثر کو فروغ دینے کے جرم میں برابر کے شریک ہو جاتے ہیں۔یہ ایک تکلیف دہ امر ہے کہ اہل علم ماضی کے حکمرانوں کی مجرمانہ غلطیوں اور پالیسیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں۔

ایسا طرز عمل نہ صرف حقائق کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرتا ہے بلکہ اس کا لوگوں کو گمراہ کرنے میں بھی ایک اہم کردار ہے۔ مسلسل تصویر کا ایک رخ دیکھنے کے بعد عوام کے لئے بھی سچ اور جھوٹ میں تفریق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومتی اقدامات کا معاشرے کی طرف سے مثبت انداز میں خیرمقدم کیا جانا چاہئے لیکن چند مفاد پرست افراد ایسا منظرنامہ پیش کرتے ہیں جو ملک کے لئے بڑے پیمانے پر انتشار کا باعث بنتا ہے۔وقت آ گیا ہے کہ لوگ اصل حقائق سامنے لانے کے لئے آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے کہا تھا کہ ’’ایک ایسا وقت آتا ہے جب خاموشی ملک دشمنی بن جاتی ہے‘‘۔ شاید اب خاموشی توڑنے کا وقت آ گیا ہے۔

(صاحب تحریر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار اور ادارۂ علاقائی امن کے بانی ہیں)

تازہ ترین