• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عارف الحق عارف ،روزویل، کیلی فورنیا ،امریکا

جہلم سے ہمارا کئی حوالوں سے جذباتی تعلق ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کا ذکر آتے ہی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہوتی اور توجّہ و دل چسپی میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ہر اُس شخص سے اپنائیت و قربت کا احساس ہونے لگتا ہے، جس کا اس تاریخی شہر سے کسی نہ کسی طرح تعلق ہے۔یہ حوالے ہجرت،بچپن، جوانی اور بڑھاپے سے جڑے ہیں۔ یہ کُل چھے حوالے ہیں ،لیکن چھٹا حوالہ باقی پانچ سے نیا، توانا اور سب پر سبقت لے گیا ہےکہ یہ حوالہ جہلم کے مشہور اشاعتی ادارے ،بُک کارنر اور اس کے بانی، شاہد حمید ، ان کے دو لائق اور فرماں بردار بیٹوں، گگن شاہد اور امر شاہد کاہے۔

جہلم سے تعلق کا پہلا حوالہ ہجرت اور بچپن کا ہے کہ ہم 1947ء میں مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کرکے عارضی طور پر جس مہاجر کیمپ میں رکھے گئے تھے، وہ جہلم کے قریب چک جمال کی فوجی چھاؤنی کی بڑی بڑی بیرکوں میں قائم کیا گیا تھا۔ ہمارے بچپن کے چار سال 1948ء سے 1952ء تک جہلم کے قریب اسی مہاجر کیمپ میں گزرے ،جو انڈین آرمی اور ایئر فورس کے حملوں کے نتیجے میں گھر بار چھوڑ کر کشمیر کے مختلف علاقوں سے آنے والے لُٹے پٹے کشمیری مہاجرین کےلیے اقوامِ متحدہ کے زیر اہتمام عارضی طور پر بنایا گیا تھا۔ 

ہم بھی اپنے آبائی علاقے، مہل پیر بڈیسر (موجودہ ضلع میر پور ) چھوڑ کر قریباً 130کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کرکے کئی ہفتوں میں وہاں پہنچے تھے۔ اس شہر سے دوسرا حوالہ یہ ہے کہ ہم ساتویں جماعت میں تھے کہ عالمِ دین بننے کا شوق ہوا اور ہم اپنے دوستوں، صوفی دین محمّداور دل محمّد کے ساتھ گھر والوں کو بتائے بغیر پیدل ہی پہلے میر پور، پھروہاں سے شکریلہ، سرائے عالم گیر اور وہاں سے جہلم پہنچے اور وہیں یہ فیصلہ کیا کہ اب کون سے دارالعلوم جانا ہے۔یہ بات اور ہے کہ ہمارا شوق پورا نہ ہو سکا۔ تیسرا حوالہ یہ ہے کہ میٹرک کے بعد جب ہمارا کراچی جانے کا انتظام ہو گیا ،تو کھوئی رٹہ سے کراچی جاتے ہوئے تین چار دن جہلم میں قیام کیا کہ یہاں کراچی لے جانے والے محسنوں کے رشتے دار رہتے تھے۔

چوتھا حوالہ یہ ہے کہ جب کراچی آکر مستقل رہائش پذیر ہوئے اور کراچی پورٹ ٹرسٹ میں مستقل ملازمت مل گئی تو چھٹیوں میں بذریعہ ریل آزاد کشمیر جاتے ہوئے ہمارا پہلا پڑاؤ جہلم ہی ہوتا۔اور کبھی ہوٹل میں اور 1967ءکے بعد اس شہر میں روز نامہ جنگ کے نمائندے کے یہاں ٹھہرتے تھے۔ پانچوں حوالہ، جہلم کے ایک مشہور سیاسی خاندان سے ہے، جن کے راجا محمّد افضل سے کراچی میں ہمارے نہایت دوستانہ تعلقات تھے۔ان پانچ حوالوں کے بعد اب چھٹا حوالہ، حال ہی میں قائم ہوا اوراب وہی سب سے مضبوط حوالہ ہے، یعنی شاہد حمید اور ان کے بیٹے۔ 

جن سے ہمارا رابطہ مُلک کے بڑے ادیب اور کہانی نویس، سب رنگ ڈائجسٹ کے مدیر ، شکیل عادل زادہ اور معروف اینکر اور کالم نگار رؤف کلاسرا نے کروایا۔اگرچہ ان کے ساتھ ہمارے رابطے کو چند ہی ہفتے ہوئے ہیں، لیکن امر شاہد اور گگن شاہد سے چند بار فون پر گفتگو سے ایسا محسوس ہوا ،جیسےہم ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہیں۔ جیسے کوئی عرصے سے بچھڑا ہوا خاندان تھا، جو اچانک مل گیا ۔اور اب ہمارے اس خاندان پر قیامت گزر گئی کہ اس کے سربراہ بک کارنر کے بانی ، جہلم شہر کی پہچان ، شاہد حمید کا انتقال ہوگیا، جس سے نہ صرف یہ گھرانہ ، بلکہ پوراجہلم شہر گہرے صدمے اور سوگ میں ہے۔

شاہد حمید نے جہلم میں کتاب کے ذریعے علم کی روشنی پھیلائی۔انہوں نے 1970ء میں ایک چھوٹی سی دُکان کی ایک آنہ لائبریری سے کام کا آغاز کیا اور اپنی شبانہ روز جدو جہد سے جہلم شہر میں دنیا کے ہر موضوع پر ہزاروں کتابوں کی بڑی لائبریری اور بُک کارنر جیسا بڑا اور مثالی اشاعتی ادارہ قائم کیا۔جس کا شمار آج پاکستان کے چند بڑے اشاعتی اداروں میں ہوتا ہے، جو مُلک کے چوٹی کے ادباء، افسانہ نگاروں ،ناول نگاروں اور اسکالرز کی کتب نہایت دل کش انداز میں شایع کرتا ہے۔

شاہد حمید کو بچپن ہی سے علم اور کتاب سے پیار تھا، جب انہوں نے اپنے شہر میںعلم کی روشنی پھیلانے کا پختہ عزم کیا تو پھر پیچھے مڑ کر کبھی نہیں دیکھا اور ہر قسم کے نامساعد حالات کا پامردی سے مقابلہ کرتے ہوئے جہلم جیسے شہر میں بک کارنر اور لائبریری کی شکل میں ایک بڑاایمپائر قائم کردیا ،جس پر نہ صرف جہلم بلکہ پورے مُلک کے علمی حلقوں کو فخر ہے۔

‎شاہد حمید کے بچپن کے دوست شبیر جہلمی بیان کرتے ہیں کہ’’ یہ 1983ءکی بات ہے،میری موجودگی میں شاہد بھائی کے پاس ایک شخص آیااور کہنے لگا کہ’’ جتنی مرضی کوشش کر لیں، جہلم میں کوئی شخص کام یاب نہیں ہو سکتا۔‘‘ اس شخص کی بات پر شاہد صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’بے فکر رہیے، ان شاءاللّٰہ مَیں آپ کو کام یاب ہو کر دکھاؤں گا‘‘ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اس شخص نے مختصر مدت میں اپنے پختہ ارادے ،جہدِمسلسل ، سچّی لگن اور محنت سے کتاب کے ذریعے علم کی روشنی مُلک کے کونے کونے تک پھیلانے کے لیے بک کارنر کی شکل میں ایک بڑا پبلشنگ ہاؤس قائم کر دیا۔

انہوں نے نہ صرف حیران کُن کام یابیاں حاصل کیں، بلکہ دُنیا بھر میں جہلم کا نام بھی روشن کیا۔‘‘ علم و ادب کے چراغ روشن کرنے والا یہ ستارہ17 مارچ 2021ء کو اس جہانِ فانی سے کُوچ کرگیا۔ ‎شاعر نے شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا ہے کہ؎ ایک روشن دماغ تھا، نہ رہا…‎ شہر میں اِک چراغ تھا، نہ رہا۔

تازہ ترین