امریکی پروفیسر Robert D Kaplan جو شہرہ آفاق کتب ’’مون سون‘‘ اور ’’بالکن گھوسٹس‘‘ کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں، نے ایک اور کمال کتاب لکھی ہے جسے نیویارک ٹائمز بیسٹ سیلر کا درجہ حاصل ہے۔ کتاب کا نام ہے ’’The Revenge Of Geography‘‘یعنی جغرافیے کا انتقام ہے۔ اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ دھرتی ماں اور وطنیت جیسے تصورات کس قدر کھوکھلے اور بےبنیاد ہیں۔ انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ جب دریا اپنا رُخ بدل لیتے ہیں، موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ایک خطے میں قیام کرنا دشوار ہو جاتا ہے، وسائل کی عدم دستیابی نقل مکانی پر اُکساتی ہے تو دھرتی ماں کی باتیں کرنے والے نئی چراگاہوں اور زرخیز سرزمین کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں ۔میرا خیال ہے کہ تاریخ جغرافیے سے بھی کہیں زیادہ ظالم ہے۔ تاریخ کو مسخ کرنے کی کتنی ہی کوشش کرلیں، یہ پھر سے اپنی اصلی حالت میں متشکل ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ جو حضرات گاڑی چلاتے ہیں، وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوں گے کہ گاڑی کے ریئر ویو مرر میں بار بار جھانک کر نہ دیکھا جائے تو گاڑی حادثے کا شکار ہو جاتی ہے۔ اگر آپ اس عقبی آئینے کو اُکھاڑ پھینکنے کے بعد یہ سمجھ رہے ہیں کہ اب پیچھے آتی گاڑیاں پریشانی کا باعث نہیں بنیں گی اور آپ اطمینان سے آگے بڑھتے جائیں گے تو اسے غلط فہمی اور نادانی کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔آئیے آج عقبی آئینے کے ذریعے ماضی میں جھانک کر تاریخ کے انتقام سے متعلق کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ لاہور جغرافیائی اعتبار سے ایک اہم شہر ہی نہیں بلکہ سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی اسے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ کوئی بھی سیاسی جدوجہد تب تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتی جب تک اسے لاہور کی تائید و حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ گویا یہ شہر تبدیلی کا مرکز ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دل ہے مگر تاریخ بتاتی ہے کہ اس شہر پر کوئی بھی 100سال سے زیادہ اپنی حاکمیت برقرار نہیں رکھ سکا۔ آج 2021میں لاہور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صوبائی دارالحکومت ہے۔ 1921ءمیں یہاں تاجِ برطانیہ کا تسلط تھا اور گورنر پنجاب چوہدری سرور جو منصب سنبھالے ہوئے ہیں، تب اس نشست پر انگریز گورنر Sir Edward Douglas Maclagan براجمان ہوا کرتے تھے۔ 1821ء میں لاہور دربار پورے جوبن پر تھا اور شیرِ پنجاب مہاراجہ رنجیت سنگھ لاہور کے مختارِ کل ہوا کرتے تھے۔ سکھوں نے 1767ءمیں یہاں قدم جمائے اور 1846ءمیں یعنی 100سال کا عرصہ گزرنے سے پہلے ہی انگریزوں نے ان سے اقتدار چھین لیا۔ بہر حال اگر 100سال مزید پیچھے جائیں تو لاہور پر مغل حکمرانوں کی کمزور حکومت قائم تھی۔ جنوری 1748ءمیں احمد شاہ درانی نے مغلوں کو بیدخل کرکے لاہور پر قبضہ کرلیا۔ 100سال اور پیچھے چلے جائیں تو 1621ء میں لاہور مغل تاجدار جہانگیر کے زیرِ نگیں تھا۔ جہانگیر کے بیٹے خسرو مرزا نے بغاوت کردی اور گرو ارجن دیو سے مل کر لاہور کا محاصرہ کرلیا مگر اسے شکست ہوئی۔ بعد ازاں شاہجہاں اور اورنگ زیب کے عہد میں بھی لاہور مغلیہ سلطنت کا حصہ رہا۔ مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر نے 1524میں لاہور فتح کیا اس سے پہلے دہلی کے سلطان بہلول لودھی نے 1441میں لاہور پر قبضہ کرکے اسے اپنی سلطنت میں شامل کیا تھا اور پھر سلطان ابراہیم لودھی کے زمانے میں بابر کی آمد تک لاہور لودھی خاندان کے زیر اقتدار رہا۔ 1305میں منگولوں نے لاہور کو تاراج کیا اور پھر تغلق خاندان نے لاہور میں قدم جما لیے۔ مزید پیچھے جائیں تو 1266میں سلطان بلبن نے لاہور کو فتح کیا مگر 1287میں امیر تیمور نے حملہ کرکے لاہور کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ 1223میں خوارزم یعنی موجودہ ازبکستان کے بادشاہ جلال الدین نے لاہور پر تسلط جمایا تو 1228میں سلطان التمش کی فوج نے عنانِ اقتدار سنبھال لی۔ 1187میں غوریوں نے لاہور پر یلغار کی اور سلطان شہاب الدین کی وفات کے بعد اس کے نائب اور جانشین قطب الدین ایبک کے زمانے میں بھی لاہور کی حکومت چلائی جاتی رہی۔ اس سے قبل 1021میں سلطان محمود غزنوی نے لاہور پر فتح حاصل کرنے کے بعد ملک ایاز کو یہاں گورنر تعینات کیا۔تختِ لاہور پر حاکمیت کی تاریخ بیان کرنے کا مقصد محض یہ بتانا ہے کہ ثبات صرف تغیرکو ہے، باقی سب ڈھکوسلے ہیں۔ جب تاریخ کا کوئی طالبعلم یہ حقائق بیان کرتا ہے تو حاکمانِ وقت کو یہ باتیں ناگوار گزرتی ہیں اور وہ تاریخ کے آئینے میں جھانک کر اپنی سمت درست کرنے کے بجائے، آئینہ دکھانے والے اس مورخ اور محقق کو خاموش کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ تاریخ بیان کرنے والے اُٹھا لیے جائیں، غائب کر دیے جائیں تو بھی تاریخ زندہ رہتی ہے۔ تاریخ اونٹ کی طرح کینہ پرور اور ہاتھی کی طرح مضبوط یادداشت کی حامل ہوتی ہے۔ تاریخ کا انتقام کبھی ختم نہیں ہوتا۔ مغل حکمراں اورنگ زیب عالمگیر اپنے بھائی داراشکوہ کو شکست دے چکا تو اس نے داراشکوہ کا ساتھ دینے والوں کی سرکوبی کا ارادہ کیا۔ صوفی سرمد کی ایک رباعی کو جواز بنا کر قتل کا فتویٰ جاری کردیا گیا اور پھر جامعہ مسجد دہلی میں منصور ہند، صوفی سرمد کا سر قلم کردیا گیا۔ اورنگ زیب کا خیال تھا کہ وہ نقش کہن مٹا چکا اور تاریخ کے مردے کو بھی سرمد کے ساتھ دفن کیا جا چکا ہے مگر یہ گڑا مردہ باہر آگیا اورنگ زیب کے ظلم و جبر کی تاریخ آج بھی زندہ ہے۔