• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں کامیاب اور موثر زندگی کے لئے جو مہارتیں درکار ہیں ان میں سے ایک ’’بات جیت‘‘ یا گفتگو میں مہارت بھی ہے۔ احسن اندازِ گفتگو انسانی زندگی میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ گفتگو کردار و شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ یہ معلومات فراہم کرنے، خیالات کا اظہار، باہم دلچسیوں کا تبادلہ کرنے کا وسیلہ ہے۔

گفتگو کے دوران موضوع کے ساتھ انداز بیان کی بھی اہمیت ہوتی ہے۔ ذہین آدمی کی پہچان تب ہوتی ہے جب وہ بروقت بااثر الفاظ بولنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ کسی دوسرے تک اپنا موقف پہنچانا اور اپنی بات کو صحیح معنوں میں سمجھانا ایک فن ہے۔

گفتگو صرف بات کرنے یا سننے کا نام ہی نہیں بلکہ یہ ایک ایسی مہارت ہے، جس سے نہ صرف نوجوانوں کی شخصیت پرکشش بنتی ہے، بلکہ عزت واحترام میں بھی اضافہ ہوتا ہے، لیکن آج کل ہمارے نوجوانوں کا یہ مزاج بن گیا ہے کہ سامنے والے کو متاثر کرنےاور مرعوب کرنے کے لئے دوران گفتگو انگریزی الفاظ کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ بعض اوقات سامع اسے سمجھ نہیں پاتا۔

موجودہ دور میں نوجوانوں میں تعلیم کا گراف پہلے کے مقابلے میں بڑھ رہا ہے، مگر اس کا جو نتیجہ اس نسل نو میں ہونا چاہئے وہ نظر نہیں آرہا، بعض نوجوان اعلیٰ سے اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کے باوجود ذہنی اعتبار سے نہایت کورے ہوتےہیں اور گفتگو اس انداز سے کرتے ہیں کہ شبہ ہوتاہے کہ وہ تعلیم سے نابلد ہیں۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر نوجوان اپنے دوست واحباب سے گفتگو کرتے وقت ’’ابے‘‘ ’’تبے‘‘ اور ’’تو‘‘ کا استعمال کرتے ہیں۔ کیاتہذیب یافتہ معاشرے کا یہی چلن ہے۔ دوسروں کو بلاوجہ متاثر کرنے اور ان کی توجہ حاصل کرنے کے لئے بعض نوجوان بلند آواز میں گفتگو کرتے ہیں زور زور سے قہقہے لگاتے ہیں جو سننے والوں کی سماعت پر گراں گزرتا ہے، اسی وجہ سے ان کی شخصیت کو بھی ناپسند کیا جاتا ہے، جبکہ آپ، جناب سے گفتگو کرنا تو اب ناپید ہی ہوتاجارہاہے۔ 

ہمارے آباء نےجوتہذیب یافتہ گفتگو ہمیں ورثے میں دی تھی ، بڑے، چھوٹوں سے گفتگو کے جو انداز ان سے رائج تھے ، اب ان کا نام ونشان تک مٹتا جارہا ہے۔بچے کے لیے پہلا مدرسہ ماں کی گود ہوتاہے سب سے پہلے وہ گھر سے بولنا سیکھتا ہے۔ ان کا اندازِ گفتگو جس طرح کاہوگا وہ اسی کو کاپی کرتا ہے۔ اس لیے والدین کو بھی چاہیے کہ بچوں کو ابتداء سے گفتگو کے آداب سکھائیں جو آگے چل کران کے لیے اور ان کی اولاد کے لیے سود مند ہوں گے۔

زندگی کے امتحانات اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ہر قدم پر موثر گفتگو کی مہارت درکار ہوتی ہے، اس کے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا کیوں کہ اندازِ گفتگو ہی چھپی ہوئی خوبیوں اور خامیوں کو ظاہر کرتا ہے۔بعض نوجوان گفتگو کرتے وقت سامنے والے کے کندھے پر ہاتھ رسید کریں گے تو کچھ ہاتھ بڑھا کر فرمائش کریں گے ’’دے تالی‘‘ یہ باوقار نوجوانوں کا انداز نہیں ہے، اس سے بچئیے۔ بعض نوجوان داداگیری زبان استعمال کرتے ہیں مثلاََ،’’ چھوڑوں گا نہیں، میں کسی کے باپ سے نہیں ڈرتا، میں اس کو کھری کھری سنائوں گا‘‘ وغیرہ ۔

یہ انداز اختیار نہ کریں بعض اوقات گولی کی کڑواہٹ کو کم کرنے کے لئے شوگر کوٹنگ کرنی پڑتی ہے، لہٰذا بات کی کڑواہٹ کم کرنے کے لئے نرم الفاظ کا انتخاب اچھی حکمت عملی ہےلیکن اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ آپ بہت ہی دھیمی آواز میں بات کریں کہ سامنے والے کو سنائی ہی نہ دے۔ خود ہی بولیں اور خود ہی سنیں والا عمل بھی مناسب نہیں۔ گفتگو میں میانہ روی ہونی چاہیے۔

بعض نوجوان محفل میں اوٹ پٹانگ باتیں کرکے سمجھتے ہیں کہ وہ محفل کو خوش گوار بنا رہے ہیں لیکن ایسا کرنے والوں کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لہٰذا محفل کی رونق بننے کی خواہش نہ کریں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ سے عزت سے بات کی جائے تواپنی گفتگو میں دوسروں کو عزت دینی ہوگی۔ اس کی مثال کچھ اس طرح ہے کہ ربڑ کی گیند کو جتنی قوت سے دیوار پر مارا جائے، اسی رفتار سے واپس آتی ہے، اس لئے بولنے کی رفتار بھی اپنا اثر رکھتی ہے۔

بہترین چائے اگر گندے کپ میں پیش کی جائے تو اس کی اہمیت گرجاتی ہے۔ لہٰذا ہمارا لہجہ سننے والے کے قلب و ذہن پر ہمارے لفظوں سے زیادہ اثر ڈالتا ہے۔

لن ترانی اور ہوائی باتوں سے بچیں۔ یاد رکھیں طویل گفتگو بات کے اثر کو زائل کردیتی ہے۔ بات چیت کرتے وقت غیر شائستہ الفاظ سے گریز کرنا چاہیے، کیوں کہ یہ آپ کی تربیت اور خاندان کو پہچان دیتی ہے۔ دوران گفتگو اپنی آواز کے اتار چڑھائو پر نظر رکھیں، اخلاقی اقدار کی برتری اسی وقت ممکن ہے جب ادا کئے گئے الفاظ سے کسی کی دل آزاری نہ ہو، کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔

نوجوانوں کو چاہئے کہ کالج، یونی ورسٹی میں جتنی سرگرمیاں ہوتی ہیں ان میں ضرور حصہ لیں ۔مثلاً مضمون نگاری، ڈرامہ، تقریری مقابلے وغیرہ۔ تقریر کرنے سے اعتماد میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ اپنے دوستوں کے گروپ میں ایک دوسرے کے اندازِ گفتگو نوٹ کریں اور آپس میں ایک دوسرے کی اصلاح کریں، کیوں کہ کامیابی کے حصول کے لئے جہاں محنت ضروری ہے، وہیں متاثر کن گفتگو بھی بے حد اہمیت کی حامل ہے۔

زیادہ سننے اور کم بولنے کے ذریعے آپ اپنی بات زیادہ بہتر انداز میں دوسروں کو سمجھا سکتے ہیں، اگر آپ ایک کامیاب انسان بننا چاہتے ہیں تو دیگر مہارتوں کے ساتھ اپنی بات دوسروں کو سمجھانے کا فن بھی لازمی آنا چاہئے۔ اس میں مہارت حاصل کرنے کے لئے سب سے پہلا حربہ مطالعہ ہے، معیاری کتب کے مطالعے سے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا

ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اساتذہ اپنے تمام عوامل سے آگہی پیدا کریں جو طلبہ کی گفتگو میں مہارت و صلاحیتوں کو نشوونما میں معاون ہوں۔ وہ طلبہ میں تحریری اور تقریری دونوں صلاحیتوں کو فروغ دیں۔ دوران تدریس اساتذہ طلبہ کو نئے الفاظ سکھائیں، تاکہ ان کے ذریعے پیرائے اظہار و گفتگو کو بہتر بنایاجاسکے۔

تازہ ترین