گو کہ بات پرانی ہو چکی ہے لیکن ریاست جموں کشمیر کے دونوں اطراف حکومت پاکستان اور ہندوستان کے درمیان سیزفائر دوطرفہ تجارت وزراے اعظم کے درمیان خطوط کے تبادلہ نے پر فکر مندی کا اظہار کیا جارہاہے مسلہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیاں ایک بڑا تنازعہ ہے حریت کانفرس اور آزادکشمیر کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے ردعمل آیا ہے اس پر وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان نےبطور اہم فریق اپنا ردعمل دیتے ہوے کہا بحثیت کشمیری پاکستان کی سلامتی ہمارے لیے سب سے اہم ہے ایک سیاسی طور پر مستحکم خوشحال پاکستان ہی ہمارا بہترین وکیل ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے مفاد میں فیصلے کرنا حکومت کا کام ہے تاہم جہاں ہندوستان کے ساتھ معاملات کی بات آتی ہے تو یہ ایک حساس اور پیچیدہ مسئلہ ہے‘ اس میں جلد بازی سے فیصلے نہیں کرنے چاہیں، اسی طرح جو ہندوستان کے ساتھ تجارت کی بحالی کا فیصلہ ہوا تھا وہ ہمارے لیے تشویش کا باعث ہے فیصلے کرنا اور پھر انہیں تبدیل کرنا حکومتی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے کشمیری ایک جمہوری،اقتصادی طورپر مضبوط اور مستحکم پاکستان کے ساتھ جانا چاہتے ہیں ہماری جائز خواہش ہے کہ 5اگست کے بعد بعض معاملات جن کا اثر عوامی سطح پر ہو فیصلہ کرنے سے قبل کشمیریوں کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے اور اس حوالے سے سیز فائر لائن کے اس پاروطن عزیز کے لیے بے پناہ قربانیاں دینے والے کشمیریوں کے جذبات و احساسات اور پاکستان کے حوالے سے ان کی امیدوں کو مدنظر رکھنا چاہیے حکومت پاکستان کو آزادانہ فیصلے کاحق حاصل ہے مگر ان امور کو مد نظر رکھا جانا چاہیے وزیر اعظم آزاد کشمیر آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت مقبوضہ کشمیر کی قیادت یہ محسوس کرتی ہے کہ بھارتی حکومت کی مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اس نے 5 اگست 2019 اور اس کے بعد جتنے بھی اقدامات کیے وہ اس پر نہ صرف قائم ہے بلکہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے مزید مسلسل اقدامات کر رہا ہے۔
ایسی صورت میں دہلی سے مذاکرات کرنے سے بھارت کے حوصلے مزید بلند ہوں گے اور وہ یہ پروپیگنڈا کرے گا کہ اس کے غیر قانونی اقدامات کو جائز اور درست تسلیم کر لیا گیا ہے لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹرز جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان بات چیت کے بعد فائربندی اس اعتبار سے درست اقدام ہے کہ اس معاہدے کے بعد دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان گولہ باری سے جو انسانی جانوں اور شہریوں کی املاک کا نقصان ہوتا ہے وہ رک جائے گا لیکن اس سے آگے بڑھ کر بھارت سے کسی قسم کے مذاکرات سے پہلے کشمیری قیادت سے مشاورت ہونی چاہیے اور کشمیری قیادت کو اگاہ کیا جانا چاہیے کہ کچمیریوں کو کیا حاصل ہو گا حکومت پاکستان لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کی قیادت خاص طور پر کل جماعتی حریت کانفرنس کی قیادت کو اعتماد میں لے تاکہ بھارت کے ماضی کے ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی متفقہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے بھارت ایک طرف مذاکرات کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف اپنی 9 لاکھ فوج کی مدد سے مقبوضہ کشمیر کی 80 لاکھ آبادی کو گزشتہ 610 دنوں سے محاصرے میں لیے ہوئے ہے اور ان کے تمام بنیادی اور شہری حقوق کو سلب کرنے کے علاوہ نوجوانوں کو ہر روز جعلی مقابلوں میں قتل کر رہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے شمالی اضلاع میں لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے ہندوستانی افواج نے شمالی کشمیر میں سخت کریک ڈاون لگایا ہوا ہے دیگر علاقوں مظالم می روز بروز اصافہ ہوا رہا ہے مقبوضہ کشمیر میں آزادی اور حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والے کشمیری اپنے آپ غیر محفوظ کررہے ہیں وہ اپنے آپ کو پاکستانی کہتے ہیں ایک طرف کشمیری کوپوری امید اور اعتماد ہے کہ ریاست پاکستان انہیں اپنی جدوجہد میں کبھی تنہا نہیں چھوڑے گی اور نہ ہی پاکستان کے 22 کروڑ عوام ان کی سیاسی اور اخلاقی حمایت سے کبھی دستبردار ہوں گے۔
کشمیری کو پاکستانی عوام سے جو پیار محبت ملی ہے ایسے کشمیری اٹوٹ رشتہ سمجھتے ہیں کشمیری اب حکومتوں سے زیادہ سمیدیں نہیں رکھتے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کو مذاکرات کی دعوت دینے کے لیے جو خط لکھا ہے اس میں الزام تراشی نمایاں ہے لائن آف کنٹرول پر بھارت اور پاکستان کی فوجوں کے درمیان فائربندی کب تک قائم رہے گی یہ بھارت کی مرضی ہے جب چائیے معاہدہ توڑ دے بھارت نے ہمیشہ جنگ بندی کی آرڑ میں بڑے مقاصد حاصل کیے ہیں کنٹرول لائن پر باڑ بھی جنگ بندی کی آرڑ میں لگائی اب کی جنگ بندی میں بھی بھارت کی کوئی بڑی چال ہوگی جارحیت ہمیشہ بھارت کی طرف سے ہوتی رہی۔ پاکستانی افواج اپنے دفاع میں بھارت کو جواب دیتی رہی ہیں اور وہ صرف بھارت کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بناتی رہی ہیں۔
پاک فوج نے مقبوضہ کشمیر کی شہری آبادی کو کبھی نشانہ نہیں بنایا کیوں کہ وہ ہمارے اپنے شہری اور بھائی بہنیں ہیں۔ سعودی عرب اور عرب امارات کی طرف سے مسئلہ کشمیر حل کروانے کی کوششوں کے بارے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا جبکہ یہ مسلم امہ کے اہم ممالک ہیں او آئی سی نے بھی مسلہ کشمیر پر جاندار کردار ادا نہیں کیاجبکہ او آئی سی کشمیر پر ایک بڑا کردار ادا کر سکتی تھی دنیا بھر کے مسلمانوں کی نظریں اوآئی سی پر رہی ہیں لیکن اوآئی سی کا کردار ایک مردہ کھوڑے سے زیادہ نہیں رہا کشمیریوں نے ہمیشہ سعودی عرب اور اسلامی تعاون تنظیم کے ممبران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت سے اپنے اچھے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے کشمیر میں مظالم بند کرائیں۔
کشمیریوں کی نسل کشی رکوائیں اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کروائیں اس وقت کشمیری تاریخ کے نازک دور سے گزر رہے ہیں انکی شناخت تبدیلی کی جاری رہی ہے مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کے لوگوں کو کشمیری ڈومیسائل جاری کیے جارہے ہیں کشمیری آبادی کو اقلیت میں تبدیل کیا جارہا ہے۔پاکستان کے مفاد کی خاطر آزاد کشمیر میں کام کرنے والوں کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے اور ایسی غلطی نہ کریں جس کا خمیازہ نسلیں بھگتتی رہیں۔