اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم میں سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین اور اپوزیشن لیڈر کے چنائو کے بعد اختلافات کھل کر سامنے آنے سے پی ٹی آئی کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سکھ کا سانس لیا ہے، پیپلز پارٹی کے سید یوسف رضا گیلانی کو سینیٹ میں ’’باپ‘‘ اے این پی اور جماعت اسلامی کے سینیٹرز کی حمایت سے اپوزیشن لیڈر بننے کے بعد پی ڈی ایم میں شامل دو بڑی جماعتوں کے درمیان لفظی گولہ باری کے بعد پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل خاقان عباسی کے بلاول بھٹو زرداری اور اسفند یار ولی کو شو کاز نوٹس جاری کرنے پر اے این نے اپنے آپ کوئی پی ڈی ایم سے الگ کرلیا۔ جس سے پی ڈی ایم کا مستقبل کیا ہو گا سوالیہ نشان بن گیا ہے اور پی ڈی ایم کا وجود خطرے میں پڑنے کا خطرہ ہے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی پراسرار خاموشی اس بات کی عکاسی کر رہی ہے کہ پی ڈی ا یم کے سربراہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے خوش نہیں ہیں، ان کی ناراضگی دور کرنے کے لئے پی ڈی ایم کے قائدین کے ان سے رابطے ہیں تاکہ پی ڈی ایم کو دوبارہ ایک پیج پر لایا جا سکے بہرکیف پی ڈی ایم کے حکومت کے خلاف لانگ مارچ ملتوی کرنے کے فیصلے کے بعد وفاق اور پنجاب میں پی ٹی آئی سرکاری کی تبدیلی کا پی ڈی ایم قیادت کا خواب دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کے درمیان اسمبلیوں کے استعفوں پر بھی شدید اختلافات ہیں اور سینیٹ کے اندر الگ الگ نشستیں لے لی ہیں۔
اس کے علاوہ پنجاب میں سرکار کی تبدیلی کے معاملہ پر مسلم لیگ (ن) کے شریف خاندان کے افراد بھی ایک پیج پر نظر نہیں آ رہے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز شریف جارحانہ سیاست کے ذریعے کوئی وقت ضائع کئے بغیر پی ٹی آئی کی حکومت کو گرانے کے لئے ہر حربہ استعمال کرنا چاہتی ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں شہباز شریف نے اپنے صاحبزادے میاں حمزہ شہباز شریف سے جیل میں ملاقات کے دوران انہیں پنجاب میں وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد لانے کی تجویز کے حوالے سے ’’انتظار‘‘ کرنے کا مشوردہ دیا ہے اور یہ کہہ کر کہ ابھی پنجاب میں سرکار کی تبدیلی کے لئے ماحول سازگار نہیں ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے سر پر تبدیلی کی لٹکتی تلوار ہٹا دی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو اور مریم نواز کا پنجاب سرکار کی تبدیلی نئے وزیراعلیٰ کے لئے چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ کا امیدوار بنانے کا بیان اپوزیشن کا ڈرامہ تھا یا حکومتی اتحادی جماعتوں میں دراڑ ڈالنے کی کوئی حکمت عملی تھی۔ چودھری برادران نے پنجاب کی پگ ان کے سر پر رکھنے کہ آصف علی زرداری اور مریم نواز شریف کی پیشکش پر کوئی ردعمل ظاہر نہ کر کے نہ صرف سیاسی پختگی تجربہ کار اور مدّبر پارلیمنٹرین ہونے کا ثبوت دیا بلکہ اس سیاسی کھیل کا حصہ نہ بن کر اپنی سیاسی ساکھ اور خاندان کی لاج رکھ بھی لی۔
اب پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں اپوزیشن جماعتوں کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات کے بعد قومی سیاست میں جو تبدیلیاں متوقع ہیں اور کیا ہونے والا ہے یہ اگلے چند ہفتوں میں کھل کر سامنے آ جائے گا۔ بہرحال اب کچھ بھی ہو مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں شہباز شریف نے جارحانہ سیاست کی بجائے مفاہمانہ سیاست اختیار کرنے کی پالیسی پی ڈی ایم کے حکومت پر تبدیلی حملہ ناکام بنا دیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ میاں شہباز شریف اپنی بھتیجی کی جارحانہ سیاست کے حامی نہیں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ میاں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریفا ور رفقاء کار قومی ادارں کے خلاف جارحانہ بیان دینے سے گریزاں ہیں۔ مریم نواز کی ناساز طبیعت کا جواز بنا کر خاموشی سے این اے 75 کے ضمنی انتخاب میں کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ ان کی جگہ حمزہ شہباز شریف کا انتخابی مہم کی قیادت کا سنبھال لینا پارٹی کے اندر اختلاف رائے کی عکاسی کرنے لگی ہے۔ دوسری جانب اس بات میں کوئی شکل نہیں کہ پنجاب کے عوام پی ٹی آئی کی حکومت کی کارکردگی سے خوش نظر نہیں آ رہے پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں کے کئی ارکان اسمبلی بھی پنجاب میں گڈ گورنس نہ ہونے سے سرکار کی تبدیلی کے خواہاں ہیں لیکن وزیراعظم عمران خاں کی وزیراعلیٰ پنجاب کو مکمل آشیرباد کے باعث کسی کو وزیراعظم کے سامنے وزیراعلیٰ پنجاب کی تبدیلی کی بات کرنے کی کسی کو جرأت نہیں ہوتی اور یوں پنجاب میں تبدیلی کا لاوا اندر ہی اندر پک رہا ہے جو کسی وقت بھی پھٹ سکستا ہے اس سے وزیراعظم کو آئندہ انتخابات میں جانے سے قبل پنجاب میں مضبوط متحرک اور سیاسی اثرورسوخ کے حامل نئے چیف ایگزیکٹو کی ضرورت پڑے گی۔
اگر پنجاب میں ضٗمنی انتخابات کے نتائج سینیٹ میں وزیر خزانہ کی شکست سے پی ٹی آئی کی قیادت نے سبق نہ سیکھا تو آئندہ انتخابات سے پی ٹی آئی کو اس کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے تاہم اس کا دارومدار حکومت کی آئندہ کارکردگی پر منحصر ہے جو گزشتہ اڑھائی سالوں میں عوام کو ریلیف دینے اور ان سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کر سکی۔
حکومت کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ پی پی، جے یو آئی اور ن لیگ کے اندرونی اختلافات سے پی ڈی ایم کا حکومت کے خلاف اٹھنے والا طوفان تھم گیا ہے مگر ابھی رکا نہیں۔ اس دوران حکومت کو اپنے اڑھائی سالہ دور حکمرانی کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لے کر نئی حکمت عملی اپنانے کے عزم کے ساتھ براہ راست عوام کی خدمت کے لئے اقدامات کرنا چاہئیں۔ پی ڈی ایم کی تحریک کمزور پڑنے کے بعد حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کے لئے مہنگائی بے روزگاری کے خاتمے کے لئے اقدامات تیز کر دیئے ہیں۔ رمضان المبارک میں پنجاب میں معیاری اور سستی اشیاء ضروریہ کی فراوانی اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
صوبائی وزیر صنعت میاں اسلم اقبال وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ کی ہدایات کی روشنی میں تمام شہروں میں سستے رمضان بازار لگوانے میں مصروف ہیں اسی طرح گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور ان کی فلاحی تنظیم سرور فائونڈیشن پسماندہ علاقوں میں اربوں روپے کی لاگت سے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کیلئے بڑی تعداد میں فیلٹریشن پلانٹ لگوا رہی ہے جس کا سارا کریڈٹ پی ٹی آئی کی حکومت کو جا رہا ہے ورنہ پنجاب میں اڑھائی سالوں میں پنجاب حکومتی کوئی قابل ذکر بڑا ترقیاتی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ وزیر اعظم عمران خان کو پنجاب میں گڈ گورننس بہتر بنانے کیلئے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کے تجزبے، مشوروں اور تجاویز سے استفادہ کرنا چاہئے۔