اسلامی فلاحی ریاست کا تصور اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ جہاں امیر اور غریب کو زندگی کی بنیادی سہولیات یکساں طور پر ان کی دھلیز پر میسر آئیں اور جیسے امیروں کے بچے محفوظ زندگی بسر کررہے ہیں، اسی طرح غریب کے لعل کو بھی چاہے، وہ ننگے پاؤں ہی کیوں نہ ہو اس کو بھی جینے کے لیے تمام بنیادی سہولیات ملنی چاہیں۔ تاہم بدقسمتی سے قیام پاکستان سے لےکر اب تک یہ سب کچھ دیوانے کا خواب ہی بنا ہوا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ طبقاتی کشمکش اس حد تک عروج پر پہنچ چکی ہے کہ اعلی طبقہ ملک کے غریب اور متوسط طبقے کو اپنے برابر نہ سہی کم تر درجے کا انسان تسلیم کرنے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھے بیٹھے ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ دن رات غریب کا مالی انڈے کے کلو اور ٹماٹر کے درجن کے نُرخ بتا کر عوام کو مہنگائی کا سونامی بتا کر ان کی ہمدردی سمیٹنے والے حکم ران انسان جو کہ سائنس کی ترقی کے دور میں جہاں دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ اس دور میں بھی سندھ میں کُتوں کے بھبھوڑنے سے زخمی ہونے اور ہائڈرو فوبیا میں مبتلا ہو کر کتے کی سی آواز نکال نکال کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔
گزشتہ دنوں سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ کے جج جسٹس آفتاب احمد گوروڑ کی عدالت نے جب ممبر صوبائی اسمبلی فریال تالپور اور ملک اسد سکندر کے حلقے میں کُتے کاٹنے کے تواتر سے واقعات پر دونوں ایم پی اے کی ممبر شپ معطل کرنے کے فیصلے نے سندھ میں سیاست میں بھونچال برپا کیا، گو کہ بعد ازاں الیکشن کمیشن نے دونوں ایم پی اے کی نشستیں بحال بھی کردیں، لیکن یہ بات ضرور عالم آشکارا ہوگئیں کہ سندھ میں نچلی کلاس کے لوگ آج بھی آوارہ کتوں کے رحم وکرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جب کہ پیپلز میڈیکل اسپتال کے اعداد و مار کے مطابق ایک ماہ میں چار سو پینسٹھ افراد جن میں خواتین اور بچوں کی اکثیریت تھی، کتے کے کاٹنے کے باعث اسپتال لائی گئی تھی، جب کہ دل چسپ بات یہ تھی کہ ضلع شہید بے نظیر آباد کا وہ تعلقہ سب سے زیادہ کتے کے کاٹنے کے واقعات میں سر فہرست رہا جو کہ حلقہ انتخاب تھا، صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کا، جس کے تعلقہ اسپتال میں نہ صرف کُتے کاٹنے سے بچاؤ کی اینٹی ریبیز ویکسین کے علاوہ سانپ کاٹنے سے بچاؤ کی اینٹی اسنیک ویکسین کی عدم موجودگی نے دس سالہ پھول کو قبر کی اتھاہ گہرائی میں اتار دیا۔
یہ تعلقہ اسپتال دوڑ کا منظر ہے جہاں باندھی کے گاؤں محمد عرس جمالی کا رہائشی حبیب اللہ جمالی اپنے دس سالہ بچے ثناء اللہ جمالی کو سانپ کے کاٹنے کے باعث اسپتال لےکر پہنچا اس بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے حبیب اللہ جمالی کا کا کہنا تھا کہ کھیت میں کام کرتے ہوئے اس کے اکلوتے بیٹے کو سانپ نے کاٹ لیا اس کا کہنا تھا کہ بزرگوں کے ٹوٹکے کے اعتبار سے انہوں نے بچے کی ٹانگ پر جہاں سانپ نے اسے ڈسا کس کر کپڑا باندھ دیا اور رکشہ میں ڈال کر بچے کو اسپتال لےکر پہنچا۔ حبیب اللہ نے جنگ کو بتایا کہ اسپتال پہنچنے پر عملہ نے انہیں بتایا کہ سانپ کے کاٹنے سے بچاؤ کی ویکسین موجود نہیں ہے۔ تاہم انہوں نے اصرار کرکے باندھا گیا کپڑا کھلوایا اور جوں ہی کپڑا کھولا گیا، ایسا لگا کہ بچے کے پورے جسم میں سانپ کا زھر سرائیت کرگیا۔
بچے کے والد کا کہنا تھا کہ اسی اثناء میں میڈیکل سپریٹنڈنٹ تعلقہ اسپتال قاضی احمد وہاں پہنچے اور کہا کہ میرے پاس سانپ کاٹنے سے بچاؤ کی ویکسین موجود نہیں، آپ کسی بااثر سے مجھے فون کرادو تو میں ویکسین منگوالوں گا۔
حبیب اللہ کا کہنا تھا اس کا پھول جیسا بیٹا اس کے ہاتھوں میں تڑپ رہا تھا اور وہ کچھ بھی نہیں کرپارہا تھا، بالآخر اس کا بیٹا تٹرپ تٹرپ کر اس وقت خالق حقیقی سے جا ملا، جب وہ ہر طرف سے مایوس ہوکر بچے کو لےکر پیپلز میڈیکل اسپتال نواب شاہ جارہا تھا کہ بچہ سانپ کے کاٹنے کے زھر پھیل جانے کے باعث جاں بحق ہوگیا۔
بچے کی ہلاکت پر ورثاء نے نعش سمیت مہران ہائی وے پر دھرنا دیا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی بچے کے والد حبیب اللہ جمالی نے جنگ کو بتایا کہ وہ بچے کو ایمبولینس میں ڈال کر پیپلز میڈیکل اسپتال نواب شاہ آرہے تھے کہ بچہ راستے میں فوت ہوگیا انہوں نے کہا کہ میں بچہ لےکر ضلع شہید بے نظیر آباد دیہی مراکز صحت میں بھی گیا، لیکن وہاں بھی سانپ کے کاٹنے کی ویکسین دستیاب نہیں تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے نواحی علاقوں کے کھیتوں میں کام کرنے والے علاقہ مکین جن میں کئی معصوم بچے اور ہاری و خواتین سانپ کے کاٹنے کے باعث ویکسین نہ لگنے کے سبب زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔
دس سالہ ثناء اللہ جمالی کی سانپ کے کاٹنے سے ہلاکت پر پورا علاقہ سراپا احتجاج تھا۔ سیکنڑوں افراد نے مہران ہائی وے پر لاش سمیت دھرنا دیکر روڈ بلاک کیا اور دن بھر احتجاج کیا۔ تاہم بعد ازاں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر دولت جمالی کی جانب سے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی اور باندھی اسپتال کے ایم ایس کے تبادلہ کے بعد دھرنا ختم کیا گیا ادھر سانپ کاٹے سے بچے کی ہلاکت کے خلاف ایم ایس تعلقہ اسپتال قاضی احمد اور میڈیکل سپریٹنڈنٹ پیپلز میڈیکل اسپتال کے خلاف جنرل سکریٹری ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن علی رضا چنہ ایڈوکیٹ نے ڈاکٹروں کی مبینہ غفلت سے بچے کی ہلاکت پر فورتھ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں درخواست دائر کی ہے جس پر عدالت نے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر اور میڈیکل سپریٹنڈنٹ تعلقہ اسپتال دوڑ و پیپلز میڈیکل اسپتال کو نوٹس جاری کئے ہیں۔
اس سلسلے میں علی رضا چنہ ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ دس سالہ ثناء اللہ جمالی کی موت نے ان کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ دیا ہے اس لئے انہوں نے اس واقعہ کے زمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لئے اور انہیں قرار واقعی سزا دلانے کے لئے درخواست دائر کی ہے تاہم یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قیمتی انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے طب کے پیشے سے وابستہ افراد ہوں یا اقتدار کے مزے لوٹنے والے قائدین ان سب کو ضرور سوچنا ہوگا کہ اب شائد ان کی مہلت عمل ختم ہونے کو ہے اور ایسا نہ ہو کہ اپنے بچوں کے لاشے اٹھانے والے ہاتھ حکمرانوں کی گردن تک پہنچ جائیں اور پھر جو حشر برپا ہوگا اس کا تصور کرنا بھی شاید محال ہوگا۔