پھولوں کا شہر کہلانے والے پشاور کو جنوبی ایشیا کے قدیم ترین شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ مختلف تہذیبوں اور دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والے تجارتی کاروانوں کے ملنے کا مرکز رہا ہے۔ صدیوں پرانی روایات اور برطانوی راج کی یاد تازہ کرتی پشاور کی تاریخی عمارتیں اس کے ماضی کی شان و شوکت کی عکاس ہیں۔
اندرون پشاور محلہ سیٹھیاں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ اس محلے میں سیٹھی خاندان کے مکانات تہہ خانوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ محلہ سیٹھیاں میں واقع سیٹھی ہاؤس ایک ایسی تاریخی عمارت ہے، جس کا منفرد طرزِ تعمیر دیکھ کر شہر کی پرانی حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے اور یوں یہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے۔
محلہ سیٹھیاں
پشاور کے محلہ سیٹھیاں میں قیامِ پاکستان سے قبل ایک امیرترین کاروباری خاندان اس خطے میں آ کر آباد ہوا، جس نے ہندوستان اور وسطی ایشیا کے درمیان پُل کا کام کیا۔ لاہوری دروازہ اور گھنٹہ گھر کے وسط میں واقع اس محلہ کی عمارتیں تہذیبی و تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔ محلہ کے تمام مکانات دو اور تین منزلہ ہیں، جن کی تعمیر بخارا کے طرزِ تعمیر کے مطابق کی گئی ہے۔ ان رہائشی عمارتوں کی تعمیر کے لیے مختلف ریاستوں کے ماہر کاریگروں کی خدمات حاصل کی گئیں جبکہ ان کی آرائش کے لیے سامان بھی وسط ایشیائی ریاستوں سے منگوایا گیا۔
ان مکانات کی تعمیر میں کیا گیا لکڑی کا کام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ کہیں لکڑی پر بیل بوٹے کندہ ہیں، کہیں لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جوڑ کر دروازوں اور چوکھٹوں کی سجاوٹ کی گئی ہے جبکہ جالیاں بھی نہایت نفیس ہیں۔ باہر سے نظر آنے والی بالکونیاں بھی لکڑی سے بنائی گئی ہیں۔ ان گھروں کے مرکزی دروازے، چھت پر لگے شہتیروں، روشن دان، پنجالیوں، دیواروں میں لگی الماریوں، چار پائیوں کے پایوں، باورچی خانہ میں جالی کی بنی ہوئی الماریوں اور چینی خانے کے فریموں سمیت ہر چیز کو تراشنے میں بڑی مہارت اور کمال فن کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔
ان مکانات کی تعمیر میں ’وزیری اینٹ‘بہ کثرت استعمال کی گئی جو کہ 3انچ چوڑی، 6انچ لمبی اور ایک سے ڈیڑھ انچ موٹی ہوتی ہے۔ گزشتہ ادوار میں نفاست لانے کے لیے اس اینٹ کا استعمال کیا جاتا تھا، جبھی تو ان مکانات کی شان و شوکت آج تک قائم ہے۔ مکانات میں داخلے کے ساتھ ہی کشادہ صحن بنے ہوئے ہیں، جہاں درمیان میں فوارہ لگا ہوا ہے۔ اس کے ارد گرد کمرے بنے ہوئے ہیں، جن کی دیواروں پر کاشی گری کے نمونے موجود ہیں۔ صحن میں کھلنے والی لکڑی کی کھڑکیوں کے شیشے رنگ برنگے ہیں۔
ان مکانات کی ڈیزائننگ اس طرح کی گئی ہے کہ یہ سردی میں گرم اور گرمی میں ٹھنڈے اور ہوا دار ہیں، اس خطے کے موسم کے اعتبار سے یہ بہترین تعمیرات ہیں۔ مرکزی کمرے یا مہمان خانہ کی آرائش کے لیے چینی خانے بھی بنائے گئے ہیں، جن میں وسطی ایشیا اور روس سے لائے گئے انتہائی نفیس اور مہنگے برتن (گردنر) سجائے جاتے تھے۔ محلہ سیٹھیاں میں تعمیر کیے گئے مکانات اس خاندان کے عمدہ ذوقِ تعمیر کی گواہی دیتے ہیں۔ اگر ان کی تزئین نو کرکے مناسب دیکھ بھال کا انتظام کیا جائے تو اس ثقافتی ورثہ کو دیکھنے کہیں زیادہ تعداد میں سیاح آئیں گے۔
سیٹھی ہاؤس
محلہ سیٹھیاں میں جداگانہ حیثیت رکھنے والے سیٹھی ہاؤس کے انوکھے طرزِ تعمیر میں جابجا امارت نظر آتی ہے۔ صدر دروازے سے داخلے کے بعد صحن کے بیچوں بیچ فوارہ نظر آتا ہے۔ اس میں بارہ کمرے، ایک ہال، تختِ سلیمانی، چمنی خانہ اور تین تہ خانے ہیں۔ محلے کے دیگر مکانات کی طرح اس میں بھی زیادہ تر لکڑی کا کام کیا گیا ہے۔ کمروں کے دروازوں پر دیدہ زیب لکڑی کندہ ہےجبکہ چھتوں پر لکڑی سے نفیس، رنگ برنگی اور خوبصورت اشکال بنی ہوئی ہیں۔ سیٹھی ہاؤس کی تعمیر میں آرائشی شیشوں کا کافی استعمال کیا گیا ہے۔ ہر کمرے میں یورپ میں تیار ہونے والے ایک سے زائد شیشے لگائے گئے ہیں۔ کمروں میں محراب بنے ہوئے ہیں جن کےاندر چراغ رکھنے کے لیے ترتیب سے چھوٹے چھوٹے محراب جوڑئے گئے ہیں۔ ہر محراب کے اندر آئینہ بنوایا گیا ہے جس پر گلدستہ اور پھول بنے ہوئے ہیں۔
آئینہ لگانے کا مقصد پورے کمرے میں چراغ کی روشنی کو پھیلانا تھا۔ آگ جلانے کیلئے کمروں کے درمیان چمنی خانہ بنایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی باورچی خانہ موجود ہے، جس کے اندر کھانا کھانے کیلئے بالکونی نما ایک جگہ بنائی گئی ہے۔ غسل خانوں میں روشنی کے حصول کیلئےروشندان کی جگہ آئینے لگائے گئے ہیں جن سے سورج کی کرنیں منعکس ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ دیوار کے ساتھ پانی کی ایک ٹینکی بنوائی گئی، جس کے پتھروں سے بنے پائپ کے ذریعہ پانی استعمال کیا جاتا تھا۔
اس کے ہال کی الماریوں اور درو دیوار پر سونے کا کام کیا گیا ہے۔ سیٹھی ہاؤس کے تہہ خانوں کی سیڑھیاں سرخ اینٹوں سے بنی ہیں۔ پہلے تہہ خانے میں بینک ہوا کرتا تھا جہاں سیٹھی خاندان کے پیسے جمع تھے۔ اس میں لکڑی کی بڑی الماریاں موجود تھیں۔ اس کے ساتھ دو اور کمرے بھی تھے جہاں بینک کے عہدیدار مالی امور کی دیکھ بھال پر مامور تھے۔ سیٹھی ہاؤس میں پانی کی ترسیل کا جدید نظام موجود ہے۔
آخری تہہ خانہ میں ایک کنواں ہے، جو اُوپر کی طرف جاتا ہے اور ہر منزل پر کنویں سے پانی حاصل کرنے کیلئے پنگھٹ بنایا گیا ہے۔ اس کی چھت پر لکڑی سے بنے بڑے چبوترے کو ’تختِ سلیمانی‘کہا جاتا ہے، جہاں بیٹھ کر خاندان کی عورتیں دھوپ سینکا کرتی تھیں۔ اس قدیم مکان کے درودیواراور لکڑیوں پر بنے دلکش نقش و نگار سنہرے دور کی یاد تازہ کرتے ہیں۔