• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی کے حلقہ 75سیالکوٹ کے مقام ڈسکہ میں گزشتہ روز تقریباً ڈیڑھ ماہ کے وقفے سے دوبارہ ہونے والا ضمنی الیکشن بوجوہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل تھا جس کی بناء پر پوری قوم کی نظریں اس پر لگی ہوئی تھیں۔ 19فروری کے ضمنی الیکشن کے برعکس ہفتے کے روز ہونے والا الیکشن کسی بھی قسم کی جانبداری، دھاندلی اور بےقاعدگی کی شکایات سے مبریٰ رہا۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس انتخابی معرکے میں تحریک انصاف کے نمائندے علی اسجد ملہی کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کی امیدوار سیدہ نوشین افتخار کی واضح اکثریت سے کامیابی ملک کی سیاسی صورت حال پردور رس اثرات مرتب کرے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما سید افتخار الحسن شاہ کے انتقال کی وجہ سے خالی ہونے والی یہ نشست روایتی طور پر مسلم لیگ(ن) ہی کی چلی آرہی ہے لیکن تحریک انصاف کے امیدوار اسجد ملہی نے گزشتہ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کا بھرپور مقابلہ کرکے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی جس کے باعث متعدد سیاسی تجزیہ کار تحریک انصاف کی حکومت میں اس کے امیدوار کی کامیابی امکانات کو خاصا روشن قرار دے رہے تھے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے بھی اس مقابلے کو بظاہر ٹسٹ کیس بنالیا تھا۔ فروری میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ وزیراعظم نے اس مقابلے میں بہرصورت کامیابی کی ہدایت کی ہے۔ اور پھر اس دن جس طرح صبح ہی سے سخت کشیدگی رہی حتیٰ کہ آتشیں ہتھیار چلے اور قیمتی انسانی جانیں تشدد کی بھینٹ چڑھیں، اس نے ابتداء ہی میں انتخابی عمل کو متنازع بنادیا تھا۔ اس کے بعد 20پولنگ اسٹیشنوں کے پریزائیڈنگ افسروں کے پراسرار طور پر لاپتہ ہو جانے اور گھنٹوں بعد الیکشن کمیشن پہنچنے پر اپنی گم شدگی کا کوئی معقول جواز پیش نہ کر پانے کے واقعے نے انتخابی عمل کی ساکھ بالکل ہی ختم کردیا تھا۔ چنانچہ الیکشن کمیشن نے ان پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج تحقیقات کی خاطر روک لیے جبکہ مسلم لیگ (ن) نے پورے حلقے میں ازسرنو الیکشن کرانے کا مطالبہ کیا۔ اس سب کے باوجود تحریک انصاف کی جانب سے ابتدائی طور پر انتخابی عمل کو قابلِ اعتبار قرار دیتے ہوئے نتائج کے اعلان کا مطالبہ کیا جاتا رہا لیکن جب الیکشن کمیشن نے تحقیقات کے بعد انتخابات کو مکمل طور پر کالعدم قرار دینے کا فیصلہ سنادیا تو حکومتی امیدوار نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی کہ صرف ان پولنگ اسٹیشنوں میں دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دیا جائے جن کے پریزائیڈنگ افسر لاپتہ ہو گئے تھے۔ تاہم سپریم کورٹ نے متعدد سماعتوں کے بعد الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ یوں گزشتہ روز نظم و ضبط قائم رکھنے کے مکمل بندوبست اور قواعد و ضوابط کی پوری پابندی کے ساتھ ضمنی انتخاب دوبارہ کرایا گیا اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی سیّدہ نوشین افتخار نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار علی اسجد ملہی کے 92ہزار 19ووٹوں کے مقابلے میں ایک لاکھ 11ہزار 220ووٹ لیکر فتح حاصل کرلی۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کی انجام دہی میں کسی بھی ناجائز دباؤ کو قبول نہ کرکے اپنا کردار جیسے خودمختارانہ طور پر ادا کیا، انتخابی عمل کو شکوک و شبہات سے پاک رکھنے کے حوالے سے اسے ملک کی انتخابی تاریخ میں ایک نمایاں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھ کر اور اداروں کی آزادی کی حفاظت کرکے ایک روشن مثال قائم کی ہے جس سے ملک میں آئینی بالادستی کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ شفاف انتخابی عمل جمہوریت کی بنیاد ہے۔ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ ادارے عزم و استقامت سے کام لیں تو انہیں کسی کی ناجائز خواہشات کی تکمیل پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اس اہم انتخابی معرکے کا یہ خوش گوار پہلو ان شاء اللہ ملک کے محفوظ مستقبل اور حقیقی جمہوریت کی راہ ہموارکرے گا۔

تازہ ترین