• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”اس کی چال بڑی مستانی، اک دنیا اِس کی دیوانی“ یا ”جب وہ سڑک پر نکلتی ہے تو ایک دنیا کی آنکھیں چکا چوند کر دیتی ہے“ ۔ آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں کسی نازنین کی تعریف کر رہا ہوں۔ جی نہیں ! میں کار کمپنی کیلئے اشتہار بنا رہا ہوں۔ ایک مشین یعنی کار کو ایک انسانی دلربا کے اوصاف سے مزین کرکے کار کمپنی صارفین کو ایک خوبصورت خواب بیچ رہی ہے۔ حسین و جمیل ماڈلوں کو مختلف اشیائے صارفین کیلئے اربوں ڈالر اسی لئے ادا کئے جاتے ہیں کہ ہم ایک خواب خرید سکیں۔ اگر کسی معاشرے کے مستقبل کی جہت دیکھنا ہو تو اس کے اشتہاروں اور بل بورڈوں کو دیکھئے، وہ بتاتے ہیں کہ آنے والے زمانے کے طرز زندگی کے کیا خدوخال ہوں گے۔
لاہور میں چھاوٴنی سے گلبرگ کی جانب آتے ہوئے مشہور اداکارہ فردوس کے نام کی مارکیٹ (فردوس مارکیٹ) اور محمد علی زیبا (یہ سڑک بھی علی زیب کہلاتی ہے)کے گھر سے پہلے کیولری گراوٴنڈ میں لگا ہوا ایک بل بورڈ میرے ذہن سے چپک کر رہ گیا ہے۔ یہ ایک اشتہار ہے جس میں ایک بہت بڑی بوتل سے دو لڑکیاں اور دو لڑکے بیک وقت اپنے اپنے اسٹرا (نلکی) سے ایک کولا مشروب سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ یہ دونوں جوڑے ایک دوسرے سے تقریباً مل کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک بوتل سے اکٹھا پیتے ہوئے بہت خوش مزاجی سے کھلکھلا کر ہنس رہے ہیں۔ میں جب بھی یہ بل بورڈ دیکھتا تو ذہن میں سوال گردش کرنے لگتا کہ آخر وہ مذہبی شدت پسند جن کا ذکر عام ہمارے میڈیا کا محبوب موضوع ہے اس طرح کے بل بورڈ لگنے کی اجازت ہی کیوں دیتے ہیں۔ لاہور میں جگہ جگہ ایسے بل بورڈ لگے ہوئے ہیں جن میں خواتین کے بازو عریاں ہیں یا وہ اٹکھیلیاں کرتے ہوئے کوئی سیل فون وغیرہ بیچ رہی ہوتی ہیں۔آخر یہ بل بورڈ کیا کہتے ہیں؟
مختلف مصنوعات بیچنے کے لئے جو اشتہار، پوسٹر یا بل بورڈ لگائے جاتے ہیں وہ صارف کو وہ دکھاتے ہیں جو وہ اپنے خوابوں میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اشتہارات خواب بیچتے ہیں یہ تو واضح نہیں کہ اشتہار اور اشتہا کے لفظوں میں کوئی تعلق ہے یا نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اشتہار سے صارف کے ذہن میں اشیاء کی اشتہا پیدا کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔ بعض ناقدین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم اکثر چیزیں صرف ان اشتہاروں سے متاثر ہو کر بلا ضرورت خریدنے پر مجبور ہوجاتے ہیں یعنی اشیائے صرف کے بنانے والے جعلی طلب پیدا کرتے ہیں۔ اس طرح کی اشتہار بازی کا اچھا یا برا ہونا ہمارا موضوع نہیں ہے، ہم تو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ایک نام نہاد قدامت پرست معاشرے میں اس طرح کی اشتہار بازی ہوتی ہی کیوں ہے؟
ٹی وی، ریڈیو اور جگہ جگہ لگے اس طرح کے اشتہاروں کا ہی نتیجہ ہے کہ اب دیہی علاقوں میں بھی نوجوان جینز پہنے بھینسوں کو چارہ کھلا رہا ہوتا ہے۔پچھلے پچاس سالوں میں مغربی طرز زندگی اس قدر چھا چکا ہے کہ اب کُرتے کی جگہ قمیض نے لے لی ہے اور بال بھی مغربی انداز میں تراشے جاتے ہیں۔ آج سے پچاس سال پہلے عام لوگ گول گلے والا کرتا پہنتے تھے اور سر کے بال بھی گول گول روایتی انداز میں کاٹے جاتے تھے۔ مغربی طرز کے بالوں کی کٹائی کو ”بودے“ کہا جاتا تھا۔ میڈم نورجہاں کا ایک پرانا گانا ہے ”پٹھے سدھے بودے واہ کے شہری بابو لنگدا“ (الٹے سیدے مغربی طرز کے بال بنا کر شہری بابو ہماری گلی میں سے گزرتا ہے)۔ اب حجاموں کو صرف ’بودے‘ کاٹنے آتے ہیں ان کے تصور میں پرانی طرز کی بالوں کی کٹائی ختم ہو چکی ہے۔ اگر مغربی طرز حیات اسی تیزی سے اپنایا جاتا رہا تو چند دہائیوں میں شلواریں جینز میں بدل جائیں گی۔ ہم اپنے بچوں کو انگریزی اسکولوں میں کوٹ ٹائی اور پتلون پہننے کیلئے بھیج رہے ہیں ۔ انگریزی میڈیم کے نام پرقائم بچوں کے اکثر اسکولوں میں انگریزی نہیں پڑھائی جاتی، صرف کوٹ پتلون (یا نیکر) اور ٹائی لگانا سکھایا جاتا ہے۔ اب ہم گھروں میں بیٹھ کر لاکھ مذہبی تعلیمات دے لیں اور روایات کا درس دیں، یہ بچے کولامشروب کے جوڑوں جیسے لوگوں کو مستقبل کا خواب سمجھتے ہیں ۔
اس لئے جب یہ نسل جوان ہوگی تو اس کا طرز لباس و حیات کیا ہوگا آپ خود ہی اندازہ لگالیں۔ مغربی طرز زندگی کے پوری دنیا میں (یہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے) غالب آنے کا مطلب ہے کہ وہی تہذیب اپنائی جاتی ہے جس کا معاشی ، سیاسی اور معاشرتی نظام زیادہ ترقی یافتہ ہوتا ہے۔ مغربی دنیا میں بھی صنعتی انقلاب کے بعد طرز زندگی میں مستقل تبدیلی آئی ہے۔ اگر آپ پندرھویں سولہویں صدی کے زمانوں پر بنی مغربی فلمیں دیکھیں تو ان میں خواتین کا پورا جسم بھاری بھرکم کپڑوں میں لپٹا ہوتا ہے، آج کا اسکرٹ وہی ہے جو ہمارا گھگھرا ہوتا تھا۔ پچھلے چار سو سالوں میں صنعتی انقلاب کے بعد طرز لباس وغیرہ مکمل طور پر بدل چکے ہیں ۔ یہی کچھ اب باقی دنیا میں ہو رہا ہے اور اس سے فرار ممکن نہیں ہے۔
پاکستان میں دھوتی کی جگہ شلوار لے چکی ہے ۔ وہ اس لئے کہ اب پیداوار مشینوں سے ہوتی ہے اور دھوتی آسانی سے مشین میں پھنس کر جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ مغربی دنیا میں بھی پتلون اور جسم سے چپکے ہوئے لباس کا رواج مشینی پیداوار کے ساتھ آیا تھا۔ مشینی پیداوار صرف لباس کو ہی تبدیل نہیں کرتی پورے ذہنی سیاق و سباق کو بدل دیتی ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان فرق کو ختم نہیں تو بہت زیادہ کم کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مختلف پیشوں میں عورتوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ جب خواتین باروزگار اور معاشی طور پر خود کفیل ہوجاتی ہیں تو وہ مرد کی روایتی برتری کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت پوری ترقی پذیر دنیا میں طلاقوں کی شرح دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ اس لئے ہم لاکھ بے شرمی اور روایتوں کی شکست و ریخت کی دہائی دیں پاکستان میں ہونا وہی ہے جو صنعتی دنیا میں پہلے ہو چکا ہے۔ جیسے جاپان اور چین مغربی طرز زندگی اپنانے پر مجبور ہوئے ویسے ہی ہمارے ہاں بھی ہو گا۔
تاریخی حقیقت یہ ہے کہ جب معاشرے میں بہت بڑی تبدیلی آتی ہے تو اس کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں مذہبی شدت پسندی اور روایت پرستی کی تحریکیں صرف بدلتے ہوئے حالات کے خلاف ردعمل ہے اسی لئے ان کو رجعت پرست کہا جاتا ہے لیکن تاریخ کے پہیے کو الٹا گھمانا ناممکن ہے۔ برقع پوش خواتین کو کولامشروب کے اشتہار میں استعمال کرنا مضحکہ خیز ہوگا۔ اس لئے ہوگا وہی جو تاریخ کے ایجنڈے پر ہے اور وہ ہے مغربی روایات کا اپنایا جانا!
تازہ ترین