کبھی اِس طرف دھیان ہی نہیں گیا، آج سوچنے بیٹھا ہوں تو یہ ہولناک انکشاف ہوا ہے کہ مجھے تو اپنے کسی بچپن کے دوست کا نام ہی یاد نہیں۔کافی دنوں سے میں فیس بک پر اپنے بچپن کے دوستوں کو ڈھونڈنے کی پلاننگ کر رہا تھا،آج تھوڑا ٹائم ملا ہے تو میں بُت بنا بیٹھا ہوں،کس دوست کو ڈھونڈوں، گلو، ببا‘ شیدا، دیمی، ٹیری، جگنو، نادی، لمبو، چکری، تیکی، ٹارزن، ڈہلو، رنگو، شانی، جبی،موٹو، کالو، فوجا،رکھا…کسی کابھی اصل نام نہیں پتا، نہ کبھی اصل نام پتا کرنے کی ضرورت پڑی۔ ہمارے اکثر پیارے اِسی اصل نقل کے چکر میں کہیں گم ہوگئے ہیں، کیا حسین دور تھا جب کوئی کسی کی اصلیت سے واقف نہیں تھا، کسی کو نہیں پتا تھا کہ کون شیعہ ہے،سنی ہے، وہابی ہے ، بریلوی ہے یا دیوبندی ہے۔کسی کی پہچان اُس کا مذہب یا فرقہ نہیں تھی،ہم اکٹھے کھیلتے تھے،ایک گلاس میں پانی پیتے تھے، ایک جیسی گالیاں نکالتے تھے اور ایک جیسے ہی گھروں میں رہتے تھے۔ہر گھرمعمولی تھا، ہر مکین بے ضرر تھا،ہر دکاندار چاچا جی تھا،ہر عورت خالہ تھی۔ دکانوں پر ’’جھُونگا‘‘ عام ملتا تھا۔کسی گھر سے کھانے کی کوئی چیز پلیٹ میں ڈھکی ہوئی آتی تھی تو کوئی نہیں پوچھتا تھا کہ یہ نیاز ہے،کونڈے ہیں یا ختم کی چیز ہے۔ کسی کو کسی کے پہناوے پر اعتراض نہیں تھا، سب بچے عید میلاد النبی کی محفلوں میں بھی کھانے پینے کے لیے موجود ہوتے تھے اور محرم میں شربت کی سبیلوں پر بھی گلاس کے گلاس چڑھا جاتے تھے، کسی گھر میں دیگ پکتی تھی تو عقیدے سے زیادہ چاولوں کی مہک سب کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔بے فکری ایسی کہ گلی میں چارپائیاں ڈال کر سونے کا رواج عام تھا۔ خوف ابھی اتنے بڑے نہیں ہوئے تھے، اُن کا حجم بہت کم تھا، اسکائی لیب گرنے کا خوف، سرکٹے انسان کے آنے کا خوف،سیلاب کا خوف، کچی چھت گر جانے کا خوف،امتحان میں فیل ہوجانے کا خوف،بیٹی کی شادی میں کھانا کم پڑ جانے کا خوف۔یہ خوف بڑوں سے بچوں میں منتقل ہوتے تھے۔ اُس دور کے بڑے بھی تو بچے ہی تھے۔ ہر گھر کے دروازے کھلے رہتے تھے، بچے کھیلتے ہوئے کسی بھی گھر میں گھس جاتے تھے اور بعض اوقات کھانا بھی کھا آتے۔ بدمعاش وہ ہوتا تھا جس کا گریبان کھلا ہوتااوروہ اونچی آواز میں بولتا تھا۔اُس دور میں ماسٹر اگر بچے کو مارتا تھا تو بچہ گھر آکر اپنے باپ کو نہیں بتاتا تھا‘ اور اگر بتاتا تھا تو باپ اُسے ایک اور تھپڑ رسید کردیتا تھا ۔ یہ وہ دور تھا جب ’’اکیڈمی‘‘ کا کوئی تصور نہ تھا‘ ٹیوشن پڑھنے والے بچے نکمے شمار ہوتے تھے ۔بڑے بھائیوں کے کپڑے چھوٹے بھائیوں کے استعمال میں آتے تھے اور یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔لڑائی کے موقع پر کوئی پستول نہیں نکالتا تھا، صرف اتنا کہنا کافی ہوتا تھا کہ ’’میں تمہارے ابا جی سے شکایت کروں گا‘‘۔ یہ سنتے ہی اکثر مخالف فریق کا خون خشک ہوجاتا تھا۔کسی گھر میں مہمان آجاتا تو اِردگرد کے ہمسائے حسرت بھری نظروں سے اُس گھر کودیکھنے لگتے اور فرمائشیں کی جاتیں کہ ’’پروہنے‘‘ کو ہمارے گھر بھی لے کرآئیں۔جس گھر میں مہمان آتا تھا وہاں پیٹی میں رکھے، فینائل کی خوشبو میںبسے بستر نکالے جاتے ،خوش آمدید اور شعروں کی کڑھائی والے تکئے رکھے جاتے ،مہمان کے لیے دھلا ہوا تولیہ لٹکایا جاتااورغسل خانے میں نئے صابن کی ٹکیا رکھی جاتی تھی۔جس دن مہمان نے رخصت ہونا ہوتا تھا، سارے گھر والوں کی آنکھوں میں اداسی کے آنسو ہوتے تھے۔بچوں کے لیے تفریح کا واحد ذریعہ Slides المعروف ’’گھیسیاں‘‘ ہوتی تھیں۔لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے قہقہے لگایا کرتے تھے،کسی موت پر پورا محلہ سوگوار ہوجایا کرتا تھا،گلی میں کولڈ کریم کی شیشیاں بھرنے والا آتا تو محلے کی ساری لڑکیاں ہاتھوں میں آٹھ آٹھ آنے اور تبت سنو کی خالی شیشیاں پکڑے آن موجود ہوتیں۔یہی صاحب دنداسہ، سُرمہ،پت مار پائوڈر، ٹیلکم پائوڈر اور اسی اقسام کے دیگر پائوڈر بھی فروخت کیا کرتے تھے۔لڑکیاں سٹاپو،ککلی ،کوکلا چھپاکی،پرچیاںاور گڑیوں سے کھیلتی تھیں۔لڑکے اڈا کھڈا، پٹھو گول گرم، لکن میٹی، باندر کلِا، بنٹے، چور سپاہی،اونچ نیچ، یسوپنجو،چڑی اڈی کاں اُڈا، کیرم بورڈ اور لڈ و کے شیدائی تھے۔تاش کھیلنے والے کو بہت برا سمجھا جاتا تھا۔ شادی بیاہوں میں سارا محلہ شریک ہوتا تھا، شادی غمی میں آنے جانے کے لیے ایک جوڑا کپڑوں کا علیحدہ سے رکھا جاتا تھا ۔ دکاندار کو کھوٹا سکا چلا دینا ہی سب سے بڑا فراڈ ہوتا تھا، گھروں میں صرف چوریاں ہوتی تھیں،ڈاکے نہیں پڑتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب امی ہوتی تھی یا ماں۔ممی ،مما یا مام کے الفاظ ابھی ایجاد نہیں ہوئے تھے، والد صاحب کو بھی ابو‘ بابا اور ابا جی کہا جاتا تھا، کوئی پاپا، ڈیڈی،ڈیڈ نہیں ہوتا تھا۔ سرشام ہی لوگ سونے کی تیاریاں کرنے لگتے تھے اور اگلے دن ہشاش بشاش اٹھتے تھے، کسی نے شوگر، ہیپاٹائٹس، ایڈز، ڈینگی، بلڈ پریشر،ڈپریشن، کورونا وغیرہ کانام تک نہیں سنا تھا، سب کو نیند آتی تھی اور خوب آتی تھی۔ ناشتے اور رات کے کھانے پر سب اکٹھے بیٹھتے تھے۔ اُن دنوں موبائل نمبر نہیں ’’پی پی‘‘ نمبر ہوتا تھا یعنی ہمسائے کا ٹیلی فون نمبر۔ مصروف سے مصروف بندہ بھی شام کو فارغ ہوکر گھر لوٹتا تھا، تب مصروف ہونے کا رواج بھی نہیں پڑا تھا۔ آج میں اُس دور کے دوستوں کو ڈھونڈنے بیٹھ گیا ہوں جس دور کا سکہّ بھی ناپید ہے۔ مری سادگی دیکھ!