مسلم معاشرہ سود خوری کی لعنت میں مبتلا، سدباب کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔سُود کی وجہ سے شہریوں کو خودکشی جیسے انتہائی اقدام پر بھی آمادہ یا مجبور کردیے جاتے ہیں۔ ایسے واقعات رونما ہونا اب کوئی نئی بات نہیں ہے، اسی طرح کا ایک واقعہ قاضی احمد پولیس اسٹیشن کی حدود میں پیش آیا، جہاں پرائمری ٹیچر بہادر دھاریجو نے ریٹائرمنٹ کے بعد سُود پر رقم لی، ان کاپروگرام تھا کہ ریٹائرمنٹ سے ملنے والی رقم اور سود پر لےجانے والی رقم ملا کر بچوں کے سر چھپانے کی جگہ اور کچھ قطعہ اراضی خرید لے گا۔
تاہم اسے پتہ نہیں تھا کہ سود پر حاصل کردہ رقم جو کہ اژدھے کی شکل میں ہوتی ہے، اس کی خون پسینے کی کمائی جو کہ اس کی تنخواہ میں سے کاٹ کر یعنی اس کا پیٹ کاٹ کر سرکار کے پاس جمع تھی بھی سود کی رقم کی ادائیگی میں چلی جائے گی، جب کہ سود کی مزید رقم اس کے ذمہ رہ جائے گی۔
اس صورت حال نے بہادر دھاریجو کو اس حد تک پریشان کیا کہ اس کی نیند اور چین سکون غارت ہوگیا اور بعد ازاں اس پرائمری ٹیچر نے اپنی زندگی کا چراغ بجھانے کا فیصلہ کیا اور چالیس سال تک علم کی روشنی پھیلانے والا محسن خودکشی جیسی حرام موت کے ذریعہ ہمیشہ کے لیے موت کی وادی میں اتر گیا اور اپنے بچوں سمیت تمام اہل خانہ کو عمر بھر کا روگ لگا گیا، بلکہ ان کی موت کا صدمہ ان کے خاندان کے علاوہ ان کے شاگردوں کے بھی حصہ میں آیا، جو ان کی موت پر نوحہ کناں تھے۔
سود کے کاروبار سے متعلق لوگوں کے بارے عوام الناس کا کہنا ہے کہ ان کے دو روپ ہیں ،جس طرح ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے کچھ اور ہوتے ہیں، اسی طرح سودی کاروبار کرنے والوں کی ریاست کے اندر ریاست ہوتی ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ کار ،ٹریکٹر ،موٹر سائیکل ہو یا فصل کی کچی بول پر خریداری وصولی کرنے والوں میں انسانی دل کی بہ جائے اسٹیل کا پرزہ فٹ ہوتا ہے، جن کو صرف اصل رقم اور اپنے کمیشن کی فکر ہوتی ہے۔
انہیں اس سے غرض نہیں کہ سود کے جال میں پھنسا پنچھی کس طرح پھڑ پھڑا رہا ہے اور ذہنی دباؤ کے باعث یہ موت کے منہ میں تو نہیں چلا جائے گا، جب کہ سود کا لین دین کرنے والوں کے بارے میں یہ اَمر بھی قابل ذکر ہے کہ نواب شاہ کی ایک این جی او کی مائیکرو فنانسنگ چھ ارب روپے بتائی جاتی ہے اور اس کا مالک جو کہ آئے دن دعوتوں میں سیکڑوں افراد جن میں ضلع انتظامیہ اور پولیس افسران اور سیاست دان ذوق وشوق سے شریک ہوتے ہیں، بڑے بڑے شادی ہالوں میں منعقد کی جاتی ہے، اور کووڈ 19 میں خدمات کے نام پر پٹکے بندھوائے جاتے ہیں، جب کہ چند لاکھ روپیہ کے اخراجات کرکے لوگوں پر یہ تاثر ڈال کر کہ انتظامیہ ہماری مٹھی میں ہے، غریبوں کا خون کشید کیا جاتا ہے ۔
دوسری جانب پرائیویٹ طور پر یا این جی او کے روپ میں سودی کاروبار کرنے والوں کے پاس بینکوں کی طرح مارک اپ طے شدہ نہیں، بلکہ کہا جاتا ہے کہ چھ ارب روپیہ سالانہ کا کاروبار کرنے والی ایک این جی او کو سترہ فی صد مارک اپ پر رقم ملتی اور وہ تئیس فی صد پر پارٹیوں کو قرض دیتے ہیں، جب کہ سینئر قانون دان نعیم منگی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ یہ سود خور خود کو نہ تو رجسٹرڈ کراتے ہیں اور نہ ہی گورنمنٹ کو ٹیکس ادا کرتے ہیں اور بینک کی جانب سے گارنٹی لینے کا قانون اور پرائیویٹ این جی او اور شو روم مالکان کی جانب سے بغیر گارنٹی صرف چیک کے ذریعہ قرض دینے کا لالچ دے کر گاہک پھنساتے ہیں۔ اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس، تنویر حسین تنیو نےہمیں بتایا کہ سود خوروں نے گاہک پھنسانے کے لیے چیک لے کر لوگوں کو بلیک میل کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سود خوروں کی جانب سے باؤنس ہونے والے چیکوں کی ایف آئی آر درج کرانے کے سلسلے میں پولیس پر دباؤ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا چیک باؤنس ہونے پر پاکستان پینل کوڈ کے قانون کے تحت 489 f کا بھر پور فائدہ سب سے زیادہ سود خور اٹھا رہے ہیں۔ ایس ایس پی تنویر تنیو کے مطابق ایک خاتون نے انہیں بتایا کہ اس نے نو ہزار روپیہ کی رقم سود پر لی تھی اور سود کی مد میں ایک لاکھ اسی ہزار روپیہ ادا کرنے پڑے ۔انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے میں قانون سازی کی جائے اور خیبر پختون خواہ (کے پی کے )کی حکومت کی طرز پر سود خوری کو روکنے کا قانون بنایا جائے۔
جب کہ ممتاز عالم دین مفتی عقیل احمد قریشی نے بتایا کہ سود خوری کو اللہ تعالی نے حرام قرار دیا اور سود لینے دینے، اس کا معاہدہ لکھنے والے اور گواہ کو جہنمی قرار دیا ہے، جب کہ سود خوری کا سب سے کم درجہ کا گناہ اپنی ماں سے زیادتی قرار دیا ہے۔ بہر حال موجودہ حکومت جو کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانا چاہتی ہے، اسے چاہیے کہ سینکڑوں ناموں سے کھلنے والی پرائیویٹ بینکوں اور این جی اوز کو نکیل ڈالے اور سود میں جکڑے ہوئے بے بس اور لاچار عوام کو ان خون چو سنے والوں سے نجات دلا کر ان کی دعائیں لے۔