روشنوں کا شہر اور معاشی حَب کہلانے والا کراچی جرائم کی آماج گاہ بن گیا ہے ۔ ڈاکووں ، لٹیروں اور اسٹریٹ کرمنلز نے معصوم شہریوں کو یرغمال بنالیا ہے، لُوٹ مار ،ڈکیتیاں، قتل معمول بن چکاہے ۔پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، جس کے باعث شہری ذہنی اذیت اور خوف کا شکار ہیں ۔ شہری حلقوں کا کہناہے کہ پولیس کے اعلی افسران جرائم پر قابو پانے کے لیے تواترسےاجلاس تو کررہے ہیں، لیکن جرائم میں کمی کی بجائے تیزی آتی جارہی ہے ،جس پرقابو پانا کراچی پولیس کے لیے مشکل ہی نہیں، ناممکن نظر آرہا ہے ۔
یُوں تو شہر میں نہ تھمنے والے جرائم کی فہرست تو خاصی طویل ہے ،لیکن ان میں سے چند کا ذکر ہی کیاجائے تو پولیس کی کارکردگی عیاں ہو جائے گی۔ واقعات کے مطابق ہفتے کی شب تیموریہ تھانے کی حدود سخی حسن چورنگی کے قریب واقع نجی بینک میں4 مسلح ڈاکووں نے دھاوا بول کر اطمینان کے ساتھ بینک کے 34 لاکرز کاٹ کر ان میں موجود شہریوں کےلاکھوں روپے مالیت کے طلائی زیوارات ،نقد رقم اور دیگر قیمتی اشیاء لوٹ کر باآسانی فرار بھی ہو گئے۔ واقعہ کی اطلاع ملنے پر اعلیٰ پولیس افسران بھی موقع پر پہنچے۔
ایس ایس پی اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کیپٹن (ر )حیدر رضا نے بھی جائے وقوعہ کا معائنہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ بینک میں مجموعی طور پر 260 لاکرز ہیں، جن میں سے34 لاکرز توڑے گئے ہیں، جن میں سے 3 لاکرز خالی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ملزمان نے مین اسٹوریج بھی توڑنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہے۔ بینک انتظامیہ اور سیکوریٹی گارڈ کی جانب سے ایس او پیز کی کئی خلاف ورزیاں کی گئیں اور بینک میں موجود سیکوریٹی گارڈ کا کردار بھی مشکوک ہے ، اسے حراست میں لے لیا گیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ رات 8 بجے تک بینک کے اندر تعمیراتی کام چل رہا تھا اور وہاں پر مزدور بھی موجود تھے، جب کہ اتنی دیر تک بینک میں کام نہیں ہونا چاہیے تھا،اس دوران بینک انتظامیہ کی جانب سے اضافی سیکوریٹی کا بندوبست بھی نہیں کیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ واقعہ ہفتہ کی شب تقریباً 9:30 بجے پیش آیا۔ بینک کی سکیوریٹی پر تعینات گارڈ اپنے کسی رکشے والے دوست کے ساتھ کھانا کھانے گیاتھا جو کہ ممکنہ طور پر ڈاکوؤں کا ساتھی تھا۔ واپس آکر سکیورٹی گارڈ نے جب بینک کا دروازہ کھولا تو ملزمان پہلے سے وہاں موجود تھے اور اس کے ساتھ ہی مسلح ملزمان بھی بینک میں داخل ہو گئے،ملزمان کئی گھنٹے بینک میں اندر موجود رہے، ان کے طریقہ واردات سے لگتا ہے کہ ملزمان کو پہلے سےتمام معلومات تھیں،ملزمان اپنے ساتھ کٹر اورگیس سلنڈر بھی لائے تھے۔
بینک میں تعینات گارڈ الگ سیکوریٹی کمپنی کا تھا، جب کہ رات کو بینک کی سیکوریٹی کسی دوسری کمپنی کے پاس تھی، دوسری سکیوریٹی کمپنی کی گاڑی معمول کے گشت پر ہفتہ رات کو بینک کے باہر آئی اور بینک کے اندر کاجائزہ لیے بغیر واپس چلی گئی ،صبح نجی سکیوریٹی کمپنی کی گاڑی دوبارہ آئی، اس وقت2 ملزمان بینک کے باہر کھڑے ہوئے تھے اور بینک کا دروازہ کھلا تھا۔ ملزمان کے ساتھ ایک سکیوریٹی گارڈ کی ہاتھا پائی بھی ہوئی تھی ۔تاہم حیرت انگیز طور پر گاڑی میں موجود دیگر سکیوریٹی گارڈز نے ملزمان پر فائرنگ نہیں کی اور گاڑی اسی طرح واپس روانہ ہو گئی، جس کے بعد ملزمان موقع سے فرار ہو گئے اور جاتے ہوئے بینک کا ڈی وی آر سسٹم اور بینک میں تعینات سکیورٹی گارڈ کا اسلحہ بھی چھین کرلے گئے۔
ایس ایس پی، ایس آئی یو کا مزید کہنا تھا کہ پولیس نے قریب لگے دیگر کیمروں سے ملزمان کی تصاویر حاصل کر لی ہیں اور ان پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ نقصان کا تخمیہ لاکرز مالکان اور بینک انتظامیہ مل کر لگائیں گے،واقعہ کی اطلاع ملنےپر لاکر مالکان بھی بینک پہنچ گئے ، لاکرز میں کسی کی بیٹی کی شادی کے طلاعی زیورات توکسی نےزندگی بھر کی کمائی رکھی تھی۔
متاثرین کاکہنا تھا کہ ہماری زندگی بھر کی جمع پونجی لُوٹ لی گئی، متاثرین نے اعلیٰ حکام سے اپیل کی کہ ان کا نقصان پُورا کیا جائے۔اس موقع پر کئی لاکرز مالکان زار وقطار روتے دکھائی دیےتو کئی کی حالت غیر ہو گئی۔بعد ازاں تیموریہ پولیس نے واقعے کا مقدمہ نمبر 339/2021 بنک منیجر دانش کی مدعیت میں درج کر لیا ہے، نجی بینک میں ہونے والی ڈاکیتی کی واردات میں ملزمان نے 42 بینک لاکرز لوٹے، تحقیقات کے دوران بینک لاکرز انشورڈ نہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے،پولیس نے ڈکیتی کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ تیار کرلی ہے، جس میں انتہائی غفلت سمیت حیران کن انکشافات ہوئے ہیں۔
تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برانچ کے کیمرے بینک کے مرکزی آفس سے لنک نہیں تھے، اگر کیمرے لنک ہوتے تو ملزمان کی فوٹیجز مل جاتیں،پو لیس بینک حکام کی غفلت پر حیران ہیں، پولیس کا کہنا ہے کہ بینک حکام نے لاکرز بھی انشورڈ نہیں کروائے تھے، پولیس حکام نے بینک ڈکیتی سے متعلق متعلقہ حکام کو خط لکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ سیکیوریٹی ایس او پیز پر عدم عمل درآمد کی وجہ سے یہ بڑی واردات ہوئی، مدعی مقدمے کے مطابق صبح 6 بجے اطلاع ملی کہ بینک میں ڈکیتی ہوگئی،بینک پہنچا تو لاکرز ٹوٹے ہوئے تھے ،بینک میں سیکوریٹی گارڈ انعام علی رسیوں سے بندھا ہوا تھا۔ پولیس نے گارڈ انعام کا بیان قلم بند کر کے اسے حراست میں لیا ہے۔
قبل ازیں 5 اپریل کوجمشید روڈ نمبر2 میں بینک کے باہر سال رواں کی سب سے بڑی ڈکیتی کی واردات میں4 موٹرسائیکلوں پر سوار 6 مسلح ملزمان کنسٹرکشن کمپنی کے ملازم سے 3کروڑ مالیت کے پرائزبانڈز لُوٹ کر فرار ہو گئے ۔ پولیس کے مطابق بلڈر کے پاس 3 روز قبل پیمنٹ آئی، جن کی مالیت 3کروڑ روپے تھی اور پرائزبانڈ ز 25ہزار والے تھے ۔ 6ملزمان نےملازم کودفتر کے قریبی ہی روکا اور اسلحہ کے زور پر اس سےپرائز بانڈز چھین کرفرار ملزمان ماسک اورٹوپیاں لگائے ہوئے تھے ۔پولیس نے واقعے کا مقدمہ درج کرکے تفتیش اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ (ایس آئی یو) پولیس کو منتقل کردی تھی ۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ واردات کے چنددن میں ہی ایس آئی یو پولیس نے ایم اے جناح روڈ تاج کمپلیکس کے قریب واقع انٹر سٹی بس ٹرمینل پرچھاپہ مار کر سال کی سب سے بڑی ڈکیتی کے2ملزمان نوید اور فرحان احمد ہاشمی کو عین اس وقت گرفتارکرلیا، جب وہ کراچی سے حیدرآباد فرار ہونے والےتھے۔ پولیس نے ملزمان کے قبضے سے ڈھائی کروڑ روپے مالیت کے پرائز بانڈز برآمد کرلیے گئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ڈکیتی میں ملوث دیگر ملزمان میں ارمان عرف نومی، عقیل، آیان اور نوشاد شامل ہیں، جن کی تلاش جاری ہے۔
ملز مان کو بلڈر کے دفتر سے 3 کروڑ روپے منتقلی کی اطلاع ملزم عقیل نے ہی دی تھی ۔ایس آئی یو پولیس کے مطابق گرفتار ملزمان عادی جرائم پیشہ اور کئی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ ملزمان نے ماضی میں بھی ایک ڈاکٹر سے 14 لاکھ روپے کےپرائزبانڈ ز چھینے تھے ، جب کہ 20 روز قبل گٹکے سے بھری گاڑی چھین کر 20 لاکھ روپے میں فروخت کردی تھی، ملزمان کے گروہ میں 8 افراد شامل ہیں۔
اس حوالے سے ایس ایس پی حیدر رضا نے بتایا کہ دوران تفتیش معلوم ہوا کہ کمپنی کے کچھ افراد بھی واردات میں شامل ہیں، جس پر تکنیکی انداز میں تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا گیا، جس کے نتیجے میں پولیس نے ایم اے جناح روڈ پر واقع انٹر سٹی بس ٹرمینلسے 2 ملزمان نوید احمد اور فرحان احمد ہاشمی کو اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ شہر سے فرار ہونے والے تھے۔