• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک وقت تھا، جب آدمی دفتر سے تھکا ہارا گھر پہنچتا تو گھر کا صدر دروازہ کھلتے ہی اس کے بچّے بھاگتے ہوئے آکر اس سے لپٹ جاتے ۔ وہ کپڑے بدل کر کھانے کی میز پر پہنچتا تو وہ چہک رہے ہوتے اور دن بھر کی روداد سنانے کو بے تاب ۔ وہ ایک دوسرے کو ٹوکتے ، ایک دوسرے کی احمقانہ باتوں پر قہقہے لگاتے۔ یہ وہ دور تھا، جب انسان کے لیے اس کے اہل وعیال ہی سب کچھ ہوا کرتے تھے ۔ وقت گزرتا گیا۔ کمپیوٹر ایجاد ہوا ۔ دنیا بھر میں تاریں بچھا کر انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا گیا۔

آج دنیا کے ہر انسان کی ایک ورچوئل لائف وجود میں آچکی ہے ۔ یہ تخیلاتی دنیا ہے ۔ انسان کی مصنوعی دوستیاں اور دشمنیاں وجود میں آچکی ہیں ۔ بڑے بڑے دانا آدمی ان لوگوں کی باتوں پر اپنا خون جلاتے اور ان لوگوں سے مغز ماری کرنے میں اپنے دن رات بتا رہے ہیں ، جو ان کے کچھ بھی نہیں لگتے۔ ایک بٹن دبا دیا جائے تو وہ سب غائب ہو جائیں لیکن بٹن دبانے کی ہمت کسی میں نہیں۔

وجہ ؟ حبِ جاہ کی خوفناک لذت۔حبِ جاہ کیا ہے ؟ دوسروں کی نگاہوں میں بڑا بننے کی آرزو۔ مرکزِ نگاہ بننے کی خواہش ۔Attention seekersکے گروہ وجود میں آچکے ہیں ۔رائج مذہبی تصورات کے خلاف لوگ چیخ رہے ہیں کہ توجہ حاصل کر سکیں۔ لوگ فیس بک کی نفسیات میں زندگی گزارنے لگے ہیں ۔ وہ اپنا ہر لمحہ capture کر کے دوسروں کے سامنے پیش کر کے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ میں بہت جری ہوں ۔ دن رات لوگ انٹرنیٹ پر اپنا خون جلا رہے ہیں۔ بے شمار لوگ الیکٹرانک لڑائیوں میں نروس بریک ڈائون کا شکار ہو رہے ہیں ۔ بچّے موبائل فونز کے نشئی بن چکے ہیں۔ بیوی بچّے اوّل تو کھانے کی میز پر اکھٹے ہوتے نہیں ۔ ہو بھی جائیں تو سب کے سب اپنے اپنے موبائل میں مگن ۔

دس سال پہلے ہمیں یونیورسٹی میں ہمارے ایک استاد فہیم اعظم نے سیکنڈ لائف کے بارے میں بتایا تھا۔ یہ ایک گیم ہے۔وہ لوگ، جو زندگی کی ناکامیوں تلے دب چکے ہیں۔وہ یہاں فرضی کامیابیاں حاصل کرتے ہیں۔فرضی شادی، فرضی جائیداد ۔ انسان اپنے آ پ کو دھوکا دیتا رہتاہے ۔ سوشل میڈیا کی زندگی میں ایسے بہت سے لوگ مصنوعی سلیبرٹی بن گئے ہیں ، جنہیں اصل زندگی میں کوئی منہ لگانا بھی گوارا نہ کیا کرتا۔

آپ GTAجیسی گیمز میں جائیداد اکھٹی کریںاور دشمنوں کی ٹھکائی کریں تو ایک عجیب سی لذت حاصل ہونے لگتی ہے ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتاہے کہ جب حقیقی زندگی میں انسان کے ہاتھ میں شہرت، دولت اور قوت آتی ہے تو اس کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ اس ساری صورتِ حال کاتاریک ترین پہلویہ تھا کہ انسان کوئی بھی چیز حقیقت میں حاصل نہیں کر تا۔ جیسے ہی کمپیوٹر بند، یہ ساری کامیابیاں بھی خاک میں مل جاتی ہیں۔ حقیقی زندگی کے مسائل اپنی جگہ موجود ۔

ایک خوفناک حقیقت یہ تھی کہ جب آپ اپنی تصوراتی زندگی (Virtual Life)میں کھو جاتے ہیں تو عملی زندگی میں کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ فیس بک کی شکل میں ورچوئل لائف کی ایک نئی اور خوفناک جہت سامنے آئی۔یہاں آپ کو جیتے جاگتے انسانوں کا ساتھ میسر ہوتا ہے۔ آپ روزانہ گھنٹوں کے حساب سے متنازعہ موضوعات پر تبصرے کر کے لوگوں کی داد وصول کر سکتے ہیں۔ اپنا ایک فین کلب بنا سکتے ہیں۔ دن بھر میں 3، 4موضوعات پر رائے دینے، بے شمار لوگوں کے کمنٹ پڑھنے، ان کا شکریہ ادا کرنے، منفی کمنٹس کی صورت میں اپنے موقف کا دفاع کرنے، دوسرے لکھنے والوں کی تحریوں پر منفی اور مثبت تاثرات ادا کرنے کے لیے آپ کو روزانہ 6، 7گھنٹے چاہئیں۔ یہ 6، 7گھنٹے 10، 12گھنٹوں میں بھی بدل سکتے ہیں ۔

اس ساری صورتِ حال کا سب سے سنگین پہلو وقت کا خوفناک زیاں ہے۔ اس سب کھیل تماشے میں انسان مست ہو جاتاہے۔ ٹانگیںپھیلائے پورا دن وہ بیٹھارہتاہے۔ تصوراتی دنیا میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتا ہے، جب کہ حقیقت میں اس کی جیب خالی ہوتی ہے۔ بیوی بچے اور ماں باپ دعا کے ہاتھ اٹھائے بیٹھے رہتے ہیں کہ ہمارےلعل کو تصوراتی زندگی سے نکل کر حقیقی زندگی میں کچھ کرنے کی توفیق نصیب ہو۔ دنیا والوں کے سامنے عقل و دانش کے موتی لٹانے والا کاش حقیقی زندگی میں ڈھنگ کا کوئی کام کر سکے۔ ادھر وہ صاحب اپنی اس تصوراتی دنیا میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے ہوئے یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ میں کیا چیز ہوں، ارسطو جیسے دانشور کی بیوی اسے بیکار سمجھتی تھی۔ حالانکہ ارسطو نے بیوی کو اوازار کرنے کے علاوہ بھی کچھ کام ایسے کیے تھے کہ اس کا نام آج تک زندہ ہے ۔

کوئی یہ انکشاف کر رہا ہے کہ جناح کے پاس فلاں ڈگری تو تھی ہی نہیں۔ کسی کا کہنا ہے کہ بیوی کی اجازت کے بغیر آپ اس کے قریب ہوئے تو آپ ایک قسم کا ریپ کر رہے ہیں ۔ ایک طوفانِ بدتمیزی ہر طرف برپا ہے ۔ لوگ پاگلوں کی طرح لڑ رہے ہیں ۔ موبائل دن بھر نوٹیفیکیشن جاری کرتے رہتے ہیں ۔ پروفیشنلز کی توجہ اپنے اپنے پیشے سے ہٹ کر اپنے نظریات کو سچ ثابت کرنے میں صرف ہو رہی ہے ۔ لوگ سیلفی لیتے ہوئے گر کر ہلاک ہو رہے ہیں ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ سیلفی جن لوگوں کے سامنے پیش ہونا تھی، وہ اس کے کچھ بھی نہیں لگتے۔ نہ ہی انہیں اس سیلفی سے کوئی فرق پڑنا تھا۔

آج کی دنیا میں ایک فیصلہ ہر نوجوان کو کرنا ہے یہ کہ آپ کو حالات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈا ل کر زندگی کے تلخ حقائق کا سامنا کرنا ہے۔ یا پھر ورچوئل لائف کے سراب میں کھو جانا ہے۔ یاد رہے، سراب نے کبھی کسی کی پیاس نہیں بجھائی۔ کیا بہتر یہ نہیں کہ انسان اصل زندگی میں ہی کچھ کر دکھانے کی کوشش کرے ؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین