برصغیر پاک و ہند میں اردو ناول نگاری کی لگ بھگ ڈیڑھ سو برس کی تاریخ ہے، جبکہ ناول نگاری کے ابتدائی دور میں، جن چند ناول نگاروں کو عوامی شہرت ملی، ان میں مرزا ہادی رسوا بھی شامل ہیں، جن کے ناول’’امرائو جان ادا‘‘ کو عالمگیر مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہ ناول پاکستان اور بھارت کی قومی، علاقائی زبانوں کے ساتھ ساتھ، دنیا کی کئی زبانوں بشمول انگریزی میں بھی ترجمہ ہوا۔
مرزا ہادی رسوا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ وہ ایک ایسے پرُآشوب وقت میں پیدا ہوئے، جب برصغیر کی تاریخ اپنے سنہری، لیکن مشکل دور سے گزر رہی تھی۔ یہ زمانہ تھا 1857 کا، جس سال مرزا ہادی رسوا پیدا ہوئے، جبکہ 1931میںان کی رحلت ہوئی۔ ان کا تخلیقی میدان صرف ادب نہیں تھا، بلکہ وہ مذہب، فلسفہ، فلکیات جیسے دقیق موضوعات پر بھی قلم اٹھاتے تھے۔ ریاست اودھ میں اردو لسان و بیان کے لیے بنائے گئے مشاورتی بورڈ کے اراکین میں بھی تھے۔ انہیں صرف اردو زبان پر ہی ملکہ حاصل نہیں تھا، بلکہ وہ فارسی، عربی، یونانی، عبرانی، لاطینی، انگریزی زبانوں پر بھی دسترس تھی۔
انھو ں نے لکھنو جیسے تہذیب یافتہ شہر سے پیشہ ورانہ زندگی کی ابتدا کی۔ شاعری کا آغاز کیا، تو انہیں، اُس وقت کے بڑے شاعر اور مرثیہ نگار، مرزا سلامت علی دبیر کی معاونت بھی حاصل تھی۔ ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی، میٹرک کے بعد’’منشی فاضل‘‘ کی سند حاصل کی۔ پیشہ ورانہ زندگی میں چھوٹے موٹے کئی کام کیے، مگر مستقل طور پر تدریس کے پیشے سے منسلک ہوئے، پھر لکھنو چھوڑ کر حیدرآباد دکن گئے، تو وہاں کی جامعہ عثمانیہ کے دارلترجمہ سے وابستہ ہوگئے۔ ساری زندگی فکشن لکھا اور اپنی زبان دانی کا سکہ بھی خوب جمایا۔ سائنس کے شعبے میں، ان کو ریاضی، کیمیا اور دیگر سائنسی علوم میں بے کراں دلچسپی تھی، جس کے لیے انہوں نے زندگی کابڑا حصہ وقف کیے رکھا۔
ان کے فنی سفرمیں پہلا سنگ میل’’لیلہ مجنوں‘‘ کی داستان پر لکھی ہوئی نظم تھی، جس کا بہت چرچا ہوا۔ یہ پہلی مرتبہ 1887 میں شائع ہوئی، جس پر ان کو ناقدوں کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں شاعری کے لیے ناموزوں قرار دیا گیا، کیونکہ وہ نظم خاصی بے باک تھی، لیکن یہ پھر بھی لکھتے رہے، اسی دوران ناول نگاری کی طرف رجحان ہوا۔ اپنے اس پہلے ناول ’’امرائو جان ادا‘‘ سے، انہوں نے ناقدوں پر اپنی نثر ی سلاست کی دھاک بٹھا دی۔ اس ناول کو لکھنو کی معاشرت پر ایک شاندار تخلیق مانا گیا، اس کے سیکڑوں ایڈیشن اب تک شائع ہوچکے ہیں۔
مرزا ہادی رسوا نے اس کے بعدکئی ناول لکھے، جن میں ذاتِ شریف، شریف زادہ اور اختری بیگم شامل ہیں، لیکن 1899 میں شائع ہونے والے ناول’’امرائو جان ادا‘‘ کے حصے میں جو مقبولیت آئی، وہ ان کا کوئی دوسرا فن پارہ حاصل نہ کر پایا۔ ان کا ایک اور منفرد علمی پہلو مذہبی تحقیق و تدوین بھی ہے، اس تناظر میں انہوں نے انتہائی سنجیدہ نوعیت کی علمی تحقیق کی، مقالے لکھے اور کتابیں مرتب کیں، ان کا یہ پہلو فکشن کی مقبولیت میں پوشیدہ رہا۔
مرزاہادی رسواکے ناول’’امرائو جان ادا‘‘ کا مرکزی خیال ایک طوائف کی زندگی ہے، جس کے ہاں زبان و ادب اوج کمال پر تھا۔ ایک مہذب معاشرہ، جہاں طوائف کی علمی خدمات کا بھی اعتراف کیا جاتا تھا، وہیں معاشرے کے ٹھکرائے اور جذباتی ناآسودگی کے مارے ہوئے لوگوں کا، وہ آخری ٹھکانہ بھی ہوا کرتی تھیں۔ ایک طوائف، جو ایک عورت بھی ہے، اس کے جذبات بھی ہیں، اس کے ہاں حساسیت اور شعوری بالیدگی بھی ہے، وہ کس طرح زندگی کے نشیب و فراز سے نبرد آزما ہوتی ہے، یہ زندگی امرائو جان ادا کے کردار میں منعکس ہوتی ہے۔ اودھ ریاست کے نواب واجد علی شاہ کے دربار میں رقص کرنے والی امرائو جان ادا کی کہانی، اردو ادب کی زندہ اور مقبول کہانیوں میں سے ایک ہے۔
اس مشہورِ زمانہ ناول پر کئی فلمیں بنیں۔ برصغیر پاک و ہند میں اس ناول پر سب سے پہلی فلم 1972 میں پاکستان میں بنی۔ پاکستان کے معروف ہدایت کار حسن طارق نے اس میں امرائو جان ادا کا کردار معروف اداکارہ رانی سے کروایا، جس کو انہوں نے امر کردیا۔ اس فلم کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے، جس کی موسیقی نثاربزمی جیسے کہنہ مشق موسیقار نے ترتیب دی، جبکہ اسکرین پلے حسن طارق نے ہی لکھا تھا۔
پاکستان کی اس فلم سے متاثر ہوکر، بھارت میں 1981 کو بھی اسی ناول پر ایک فلم بنی۔ معروف ہدایت کار مظفر علی نے امرائو جان ادا کا کردار، مقبول اداکارہ ریکھا سے کروایا، جس کو انہوں نے خوب نبھایا، البتہ اس فلم میں خواتین کرداروں کے بجائے مرد کرداروں سے فلم کا منظرنامہ تشکیل دیا گیا، فاروق شیخ، نصیرالدین شاہ، راج ببر سمیت کئی اداکاروں نے متاثرکن اداکاری سے فلم بینوں کے دل موہ لیے۔
فلم کی موسیقی معروف بھارتی موسیقار خیام نے دی، جبکہ جاوید صدیقی اور شمع زیدی نےفلم کا اسکرین پلے لکھا۔ اس فلم کو بھی پاکستانی فلم کی طرح کلاسیکی فن پارہ تسلیم کیا گیا، البتہ 2006 کو بھارت میں اسی ناول پر بننے والی فلم، جس کو فلم ساز جے پی دتا نے بنایاتھا، بری طرح ناکامی سے دوچارہوئی۔ اس فلم میں معروف اداکارہ ایشوریا رائے نے امرائو جان ادا کا کردار نبھایا،لیکن ناقص کارکردگی رہی۔ موسیقی انو ملک نے دی ، جبکہ اسکرین پلے ہدایت کار جے پی دتا اور اوپی دتانے لکھا تھا۔
اردو ناول نگاری کی دنیا میں مرزا ہادی رسوا کا نام اپنے اس ناول’’امرائو جان ادا‘‘ کی وجہ سے زندہ رہے گا، ہر بدلتے دور کے ساتھ اس کہانی پر بھی کام ہوتا رہے گا، کیونکہ ہر دور میں ایک امرائو جان ادا ہوتی ہے، جس کو بیان کرنے کی خواہش لیے مرزا ہادی رسوا بھی جنم لیتا ہے۔
تاریخ سے گلیمر کے ساتھ مقبول ہونے والی کہانیوں میں اس کہانی کو ہمیشہ مقبولیت ملتی رہے گی۔ اب تک اس ناول کے لیے بپا ہونے والی شہرت تو یہی بتا رہی ہے۔ عالمی ادارے ’’یونیسیکو‘‘ نے اس ناول کو عالمی ادب کی یادگار اور نمائندہ تخلیقات میں شامل کیا ہے۔