اولڈ راوین یونین برصغیر کے معروف تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے سابق طلبا و طالبات پر مشتمل ایک یونین ہے۔ اس کے 9ہزار سے زائد ممبران ہیں جن میں سابق وزرائے اعظم، فوجی افسران، ججز حضرات، وکلا، صحافی، ڈاکٹر، انجینئر، استاد، بیوروکریٹ اور دیگر طبقہ ہائے زندگی سے منسلک لوگ شامل ہیں۔ ہر دو سال بعد یونین کے انتخابات ہوتے ہیں اور اولڈ راوین اپنی کابینہ منتخب کرتے ہیں۔ اس مرتبہ انتخابات 14فروری 2021کو ہوئے اور 15رکنی کابینہ منتخب کی گئی۔ ملکی سیاست کی طرح یہاں بھی ہارنے والوں نے اِس الیکشن پر تحفظات کا اظہار کیا۔یونین کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سب سے زیادہ ووٹ کاسٹ ہوئے، جیتنے اور ہارنے والوں کے درمیان ووٹوں کا فرق بھی ماضی کی نسبت سب سے زیادہ رہا۔ ہارنے والوں نے جیتنے والوں کو مبارکباد دی اور اکثریت نے نتائج کو تسلیم کیا لیکن نتائج آنے کے 4دن بعد 3امیدواروں نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگانا شروع کر دیے۔ ادارے کے سربراہ اور معزز اساتذہ کی کردار کشی کی گئی۔ اس الیکشن کے تناظر میں اسی معاصر میں ایک معزز کالم نگار کے دو کالم چھپے۔ یہ کالمز حقائق سے برعکس تھے، اصل حقائق کیا تھے؟ میں آپ کو بتاتا ہوں۔
31دسمبر 2020کو یونین کی ممبر شپ حاصل کرنے کا آخری دن تھا اور اس کے بعد الیکشن کا ماحول بن چکا تھا۔ 18جنوری 2021کو وائس چانسلر نے 4ارکان پر مشتمل الیکشن کمیشن تشکیل دیا، جس میں جسٹس (ر) شیخ احمد فاروق (چیف الیکشن کمشنر)، محمد صدیق اعوان(سیکرٹری) اور دو ممبران پروفیسر ڈاکٹر سید سلطان شاہ اور پروفیسر ڈاکٹر احمد عدنان شامل تھے۔ 26جنوری 2021کو الیکشن کمیشن نے الیکشن شیڈول جاری کیا جس کے مطابق الیکشن کی تاریخ14 فروری 2021قرار پائی۔ مختلف گروپوں کے 30سے زائد امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔ الیکشن کی تاریخ تک کسی امیدوار کی طرف سے الیکشن کمیشن یا الیکشن کی تاریخ پر کوئی اعتراض جمع نہیں کروایا گیا۔ پولنگ ختم ہونے تک بھی مبینہ دھاندلی کا الزام لگانے والوں کی طرف سے کوئی تحریری درخواست منظر عام پر نہ آئی۔ نتائج مرتب ہونے کے بعد جسٹس (ر) شیخ احمد فاروق نے بخاری آڈیٹوریم میں نتائج کا اعلان کیا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے 15کامیاب امیدواروں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا اور اسی رات سیکرٹری فنانس اور ساٹھ کی دہائی کے ایگزیکٹو ممبر کی سیٹ پر دوبارہ گنتی کی ایک درخواست جمع کروائی گئی۔ الیکشن کمیشن نے تمام سیٹوں پر دوبارہ گنتی کے لئے 16فروری کا دن مختص کیا۔ 16فروری کو سیکرٹری فنانس کی سیٹ پر ووٹوں کی گنتی ہوئی، ہارنے والے امیدوار نے نتائج کو تسلیم کیا اور سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ وہ الیکشن نتائج کو تسلیم کرتے ہیں۔ نائب صدر کی نشست پر گنتی مکمل ہونے کے بعد وہاں موجود ہارنے والے گروپ کے چیئرمین نے کھڑے ہو کر کہا کہ ہم نتائج کو تسلیم کرتے ہیں اور مزید گنتی کی ضرورت نہیں۔ اُنہوں نے جیتنے والوں کو باضابطہ مبارکباد بھی دی لیکن 18فروری کو اُنہیں خیال آیا کہ یہ سارا عمل جس میں وہ اپنی مکمل مرضی و منشا سے شامل تھے اور جو چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) شیخ احمد فاروق اور الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی ہوا تھا، وہ غیرقانونی ہے لہٰذا انہوں نے کمیشن کو یہ درخواست جمع کروا دی۔ 10مارچ کو 3رکنی بینچ نے پہلی سماعت کی۔ 11مارچ کو ہارنے والوں نے جسٹس (ر) شیخ احمد فاروق کو درخواست جمع کروائی کہ نئی کابینہ کو حلف اٹھانے سے روکا جائے۔ چند گھنٹوں بعد شیخ صاحب نے درخواست پر کوئی بھی نوٹس جاری کئے بغیر اور منتخب کابینہ کا موقف سنے بغیر اسٹے آرڈر جاری کر دیا۔ 22مارچ کی سماعت میں بینچ کے تین میں سے دو اراکین نے اسٹے خارج کر دیا اور اس سماعت کے اختتام پر الیکشن کمیشن نے جو آرڈر فریم کیا اس میں لکھا کہ اگلی سماعت پر اس نکتے پر بحث ہوگی کہ آیا الیکشن کمیشن یہ درخواستیں سن بھی سکتا ہے یا نہیں۔ 9اپریل کو یونیورسٹی رجسٹرار نے چیف الیکشن کمشنر شیخ احمد فاروق کو خط لکھا کہ 12اپریل کو سماعت والے دن یونیورسٹی سلیکشن بورڈ کی وجہ سے سماعت ممکن نہیں لہٰذا نئی تاریخ دے دی جائے لیکن الیکشن کمشنر نے کہا کہ سماعت ہر صورت ہوگی۔ 12اپریل کو الیکشن کمشنر نے اپنے دفتر میں ایک عدالت لگائی جس میں یکطرفہ فیصلہ سناتے ہوئے نہ صرف یہ فیصلہ کر دیا کہ کمیشن درخواستیں سن سکتا ہے بلکہ الیکشن کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔ تفصیلی فیصلے میں الیکشن کالعدم کرنے کی وجہ یہ لکھی گئی کہ یونین قانون کے مطابق الیکشن ممبرشپ ختم ہونے کے 3ماہ بعد ہونے چاہئیں لہٰذا 14فروری کا الیکشن کالعدم ہے یعنی جس الیکشن کی تاریخ انہوں نے خود دی، جس الیکشن تاریخ پر سب نے بغیر کسی اعتراض کے حصہ لیا اور جو الیکشن ان کی اپنی نگرانی میں ہوا اس کو انہوں نے خود ہی غیرقانونی قرار دے دیا۔ اس کے بعد کمیشن کے دیگر دو اراکین نے اکثریتی فیصلے سے ہارنے والے گروپ کی درخواستوں کو رد کر دیا اور اپنا فیصلہ جاری کیا جس کے مطابق انتخابات شفاف اور قانونی تھے۔
مادر علمی روتی رہی کیونکہ اس سے فارغ التحصیل لوگوں میں بعض ایسے افراد بھی شامل ہو گئے ہیں جو اپنی سیاست چمکانے کے لئے الزام تراشی اور جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ لوگ محض اپنی ہار کو تسلیم نہ کرنے کے لئے مادرعلمی کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ افسوس صد افسوس، یہ کہتے تو ہیں کہ انصاف کریں، سچ بولیں، اچھے آدمی بنیں لیکن اپنی باری آئی تو:
شیخ آئے جو محشر میں تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)