• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہباز شریف کی رہائی کے بعد غیراعلانیہ سیاسی سرگرمیوں میں تیزی

اسلام آباد (فاروق اقدس/نامہ نگار خصوصی) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کی رہائی کے بعد اپوزیشن کی غیر اعلانیہ سرگرمیوں اور رابطوں میں اضافہ ہوگیا ہے ان رابطوں میں عید کے فوری بعد حکومت کے خلاف تحریک قومی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاسوں میں زیر بحث لانے والے ایشوز اور حکمت عملی سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال ہو رہا ہے۔

دوسری طرف پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس بھی عید سے پہلے بلانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔

 انہی رابطوں اور سرگرمیوں کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی سیاست کے اہم کردار قیوم سومرو جنہیں بیک وقت آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کا ’’مشترکہ معتمد خاص‘‘ سمجھا جاتا ہے گزشتہ تین دن سے اسلام آباد میں موجود رہے اور مولانا فضل الرحمان کو آصف علی زرداری کا پیغام پہنچایا۔ 

سابق صدر آصف علی زرداری کے دور حکومت میں جب مولانا فضل الرحمان کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے اسلام آباد کی منسٹرز کالونی کے بنگلہ نمبر22 میں سکونت پذیر تھے تو قیوم سومرو جو پہلے جمعیت علمائے اسلام سے وابستہ تھے اور بعد میں آصف علی زرداری کے قریب ہوگئے۔ 

ایوان صدر اور بنگلہ نمبر22 کے درمیان ایک ’’خصوصی ایلچی‘‘ کی حیثیت سے فرائض انجام دیا کرتے تھے ان کی کراچی سے آمد اور مولانا فضل الرحمان سے ایک سے زیادہ ملاقاتیں ان ’’ سچی افواہوں‘‘ کو تقویت دیتی ہیں کہ جلد یا بدیر موزوں وقت پر پاکستان پیپلز پارٹی دوبارہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں واپس آجائے گی اور اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر یقیناً عوامی نیشنل پارٹی کو بھی واپس آنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔

 بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان اس سارے عمل میں خود ہی بڑے بھائی کا کردار ادا کرتے ہوئے دونوں جماعتوں کے قائدین کو منا لیں تاہم اس صورتحال میں میاں شہباز شریف کی طرز سیاست غیر معمولی طور پر اہم ہوگی کیونکہ پی ڈی ایم نے اگر حکومت کے خلاف ڈھیلی ڈھالی اور نمائشی اپوزیشن کا کردار کیا تو‘‘ بہرحال میاں نواز شریف کو یہ منظور نہیں ہوگا اور مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے حتمی فیصلہ بہرحال میاں نواز شریف نے ہی کرنا ہے۔

 وفاقی دارالحکومت کے سیاسی دانشوروں کے حلقوں میں یہ تاثر بھی ’’ سچی افواہ‘‘ کی شکل میں موجود ہے کہ مریم نواز کا لندن جانا طے ہوچکا ہے اور اس تاثر کو تقویت دینے کیلئے وہ تازہ ترین مثال کے طور پر میاں شہباز شریف کی رہائی کے فوری بعد انہوں نے مفتاح اسماعیل کی انتخابی مہم میں شرکت کیلئے جس کا انہوں نے کافی دن پہلے سے اعلان کر رکھا تھا فیصلہ منسوخ کر دیا پھر ہفتے کو لاہور میں میڈیا سے گفتگو کے دوران مریم نواز نے پیپلز پارٹی کے خلاف نہ صرف کوئی بات نہیں کہ بلکہ بلاول بھٹو سے اپنے سیاسی تعلق کو برقرار رکھنے کی بھی بات کی ۔

تازہ ترین