کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر سپریم کورٹ بار رشید اے رضوی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ سمجھتی ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں کچھ بھی نہیں ہے،سابق صدر سپریم کورٹ بار حامد خان نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کے عدالتی فیصلے کے بعد ایف بی آر اور سپریم جوڈیشل کونسل کوئی کارروائی نہیں کرسکتے، سابق جج لاہور ہائیکورٹ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس عجلت میں فائل کیا گیا تھا، سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل عابد ساقی نے کہا کہ باشعور شہریوں کا پہلے دن سے یہ نکتہ نظر تھا کہ جج صاحب کے چند فیصلوں کی بنیاد پر انہیں ٹارگٹ کیا گیا۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار حامد خان نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کے عدالتی فیصلے کے بعد ایف بی آر اور سپریم جوڈیشل کونسل کوئی کارروائی نہیں کرسکتے، 19 جون 2020ء کے فیصلے کے مطابق ریفرنس ختم ہوگیا تھا لیکن اس کا شاخسانہ رہ گیا تھا جو آج کالعدم ہوگیا ہے، اگر ایف بی آر اب کچھ کرتا ہے تو وہ بدنیتی پر مبنی ہوگا، پچھلے دو سال کی کارروائیوں سے لگتا ہے حکومت ایف بی آر کو استعمال کررہی تھی، لگتا ہے کچھ قوتیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ناراض تھیں اور انہیں نشانہ بنارہی تھیں، حکومت نے چیئرمین ایف بی آر کوتبدیل کردیا اس سے شکوک و شبہات مزید بڑھے،ایف بی آر اب کوئی ایکشن کرتا ہے توا سے جائز نہیں کہا جاسکتا۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے دیگر ججوں کی طرح ایک جج ہیں، چیف جسٹس اور تین ججوں نے جو مخصوص حکم دیا کہ جسٹس فائز عیسیٰ فلاں کیس نہ سنیں اس کیخلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی جاچکی ہے، چیف جسٹس کا یہ فیصلہ غالباً درست نہیں ہے قانون کہتا ہے جج خود فیصلہ کرتا ہے اسے کون سا کیس سننا چاہئے اور کون سا کیس نہیں سننا چاہئے۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار رشید اے رضوی نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے نظرثانی اپیل میں تمام تفصیلات دیدی ہیں، سپریم کورٹ سمجھتی ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں کچھ بھی نہیں ہے، فیڈریشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کوئی نظرثانی اپیل نہیں کی تھی لیکن آج ایسے کیس چلارہے تھے جیسے انہوں نے یہ نظرثانی اپیل دائر کی ہے، ایک جج صاحب اور ان کی فیملی کو ہراساں کرنے کا سلسلہ آج اختتام پذیر ہوا ہے، ایف بی آر اب اگر اس کیس میں کچھ کارروائی کرتا ہے تو تعصب کہلائے گا،کوئی جج کسی دوسرے جج کو مخصوص کیس نہ سننے کا حکم نہیں دے سکتا ہے، یہ فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق نہیں ہے اس پر نظرثانی ہونی چاہئے۔ سابق جج لاہور ہائیکورٹ جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس عجلت میں فائل کیا گیا تھا، سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا تھا، سرینا عیسیٰ اس معاملہ میں فریق نہیں تھیں ان کیخلاف ایف بی آر کو تحقیقات کا حکم دیا گیا، سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلہ دینے کے بعد ایف بی آر سے تحقیقاتی رپورٹ مانگنا بہت عجیب بات تھی، نظرثانی اپیل کے فیصلے کے بعد بھی ایف بی آر اپنے طور پر کچھ کرناچاہے تو کرسکتا ہے، کسی کے خلاف ٹیکس معاملات سامنے آتے ہیں تو ایف بی آر اپنے طور پر اسے کھول سکتی ہے،اس فیصلے کے بعد کچھ نہ کچھ تبدیلیاں تو ضرور آئیں گی۔ سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل عابد ساقی نے کہا کہ باشعور شہریوں کا پہلے دن سے یہ نکتہ نظر تھا کہ جج صاحب کے چند فیصلوں کی بنیاد پر انہیں ٹارگٹ کیا گیا، سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں صدارتی ریفرنس کو بدنیتی پرمبنی قرار دینے کے بعد ایف بی آر کو ہدایات دینا نیا پروپیگنڈا باکس کھولنے کے مترادف تھی، وہ تمام لوگ سرخرو ہوئے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے، آج آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی خودمختاری کیلئے تاریخی دن ہے۔عابد ساقی کا کہنا تھا کہ ججوں اور جرنیلوں سمیت تمام افراد کا بلاتفریق احتساب ہونا چاہئے، کسی ایک شخص کو انتقام کا نشانہ بنانے کی کوشش کیخلاف آج بہت بڑی رکاوٹ کھڑی ہوگئی ہے۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ اور حکومت کیلئے آج انتہائی اہم دن رہا، پیر کو سپریم کورٹ کے دس رکنی بنچ نے صدارتی ریفرنس کے فیصلے کیخلاف نظرثانی اپیلوں کا فیصلہ سنادیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سرینا عیسیٰ کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے 19جون 2020ء کے اس حکم کو واپس لے لیا ہے جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ اور ان کے بچوں کی جائیدادوں کا معاملہ تحقیقات کیلئے ایف بی آر کو بھجوادیا گیا تھا۔