• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مکافات عمل قانون قدرت ہےتاریخ متعدد مرتبہ اس کا مظاہرہ دیکھ چکی اور اب شاید پھر سے دیکھ رہی ہے ..... جس سوشل میڈیا کے کندھوں پر سوار ہوکر عمرانی حکومت کی بنیاد رکھی گئی وہی سوشل میڈیا عمرانی حکومت کے خلاف ابل پڑا ہے، سوشل میڈیا عمرانی حکومت کیلئے آن لائن ہائیڈ پارک بن چکا ہے، جہاں بلا روک ٹوک جیسے چاہو جو چاہو کی بنیاد پر لکھا اور بولا جارہا ہے ، آندھیوں پر قدغن لگا کرگلیات کی سیر کروانے والوںکی تصویر کشی جاری ہے۔

کچھ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار سوشل میڈیا کو جکڑنے کیلئے قانونی پابندیوںکی زنجیریں تیارکرنے میں دن رات مصروف ہیں گویا اب پاکستان کو بھی چند ان ممالک جیسا بنانے کی سعی کی جا رہی ہے،جہاں سوشل میڈیا پر اس لیے سخت پابندیاں ہیں کہ حکومتیں اپنے بارے میں عوام کے کسی قسم کے تاثرات سننے اور برداشت کرنے کی روادار نہیں ۔ تاہم ہمارے ہاں ڈگڈگی پرنچوانے کا تماشہ کر نے والے ادراک نہیں رکھتے کہ جن نوجوانوں کو آلہ کار بنا کر آپ نے تبدیلی کا سرابی نعرہ لگایا اورتخت پر قبضہ جمانے کا روڈ میپ تیار کیا تھا،وہ حکومتی ناکام پالیسیوں اور بے روزگاری کے بوجھ تلے دب چکے ہیں،اس کے نتیجے میں نوجوانوں کی اکثریت انقلابی جالب ، مزاحمتی فیض ، انوکھے جوش ملیح آبادی ،مدھم مدھم جاوید اختر اور رنگین طبع راحت اندور یوں کا روپ دھار چکی ہے ۔

حکومتی شہ خرچیوں اور مہنگائی کے طوفان کے باعث نوجوان ،بچے اور بوڑھےسیلابی ریلے بن چکے ہیں،یہ اب سرکشی پر بھی آمادہ دکھائی دیں گے ،اپنی حد میں بھی نہیں ٹھہریں گے،جتنا مرضی زور لگا لو یہ ابھریں گے اور سیل رواں بن کر اپنے آقائوں کو خس و خاشاک کی مانند بہا لے جائیں گے، ڈھائی سالوں کی سیاہ رات جیسی ناکامیوں پر فخر کرنے کا یک طرفہ پراپیگنڈہ اب ان کے سامنے نہیں چلے گا،جس سوشل میڈیا کوخالہ جی کا گھر سمجھ کر آپ کو اقتدار کا ٹیسٹ میچ کھلایا گیاوہ تو ٹی 20 ثابت ہوا۔حکومتی ناکامی نے عوام کو ناکوں چنے چبوا دئیے ہیں،عوام برملا کہہ رہے ہیں کہ ہم پر تو 18 اگست 2018 کو ہی کورونا آگیا تھا ، جس نے مبینہ ریاست مدینہ بارےعوامی توقعات کو بری طرح روند ڈالا ،اقتدار کی اس سیاہ رات میں گلے پھاڑ پھاڑ کر نفرتوں کی بدعت کو فروغ دیا گیا ، جھوٹ اور جھوٹے الزامات کے ایسے ابواب رقم کئے گئے جنھیں مٹانے میں کئی سال لگ جائیں گے، لیکن آپ کو تو فخر ہے نا آپکی کارکردگی پر؟ اقتدار کے خاتمے کے بعد کسی روزکسی عوامی گلی میں جائیے گا سارا دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔

آپ کے مشہور پیٹی بھائی ملتانی چندہ باز مصنوعی لہجے میں گرج رہے تھےکہ 18 اگست 2018 کو اقتدار کا ہما آپ کے سر پر نہیں بٹھا یاگیا بلکہ 22 سال کی جدوجہد تھی ،ویسے اتنی مضحکہ خیز بات ان کے منہ پرہی سجتی تھی کہ جن کے سگے شریک پیر بھائی انھیںچٹے دن القابات تجاہلانہ سے نوازکر ان کی مبینہ ایمانداری سے پردہ اٹھاتے رہے ہیں، بیڑہ تر جائے اس موئے کا جس نےسوشل میڈیا پر ملتانی بزرگ کی چندہ دکانداری پر مبنی ویڈیو ڈال کر خوب نقدو نقد ویورشپ وصولی۔

عدالتوں میں عدم ثبوت کی بنیاد پر مسلم لیگی رہنمائوں کی پے در پے ہونے والی ضمانتوں نے ہوائوں کا رخ بدل دیا ہے، لیکن آپ اپنی روش پر قائم ہیں، جس بھونڈے طریقے سے میاں نواز شریف کی والدہ کی180 کنال اراضی کا انتقال منسوخ کیا گیاوہ عوام پر آشکار ہوچکا ہے،جوں جوں نواز شریف کا بیانیہ بلڈوز کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے نواز شریف کا بیانیہ اتنا ہی زیادہ شدت سے ابھر کر سامنےآرہا ہے،ن لیگ سے م لیگ اور ش لیگ نکالنے والے بول بچنی دیہاڑی دار بھاڑے کے ٹٹو ہی ثابت ہوئےہیں۔جن نوجوان اذہان کے کندھوں پر سوار ہوکر آپ اقتدار پر قابض ہوئے اب وہی چیخ چیخ کر مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمارا نواز شریف واپس کرو،نواز شریف کا بیانیہ مریم نواز شریف اورحمزہ شہباز شریف کی شکل میں مکمل طور پر تیار ہوچکا ہے، جو اپنے قائدین میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان کو دوبارہ سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن کریں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین