• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفتاح اسماعیل کو 16 ماہ قبل ضمانت دینے کی وجوہات جاری

اسلام آباد (طارق بٹ) مفتاح اسماعیل کو 16 ماہ قبل ضمانت دینے کی وجوہات جاری کردی گئیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ایل این جی کانٹریکٹ دینے سے متعلق نیب الزامات اندازوں اور قیاس آرائیوں پر مبنی تھے۔

تفصیلات کے مطابق، اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ نیب نے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل پر جو الزامات عائد کیے ہیں اور ان کی جانب سے ایل این جی کے حوالے سے قومی خزانے کو پہنچائے جانے والے نقصان کا جو تخمینہ لگایا ہے اور اندازوں اور قیاس آرائی پر مبنی ہے۔

دو رکنی بنچ جو کہ چیف جسٹس اطہر من اللہ اور میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل تھا نے مفتاح اسماعیل کی ضمانت 23 دسمبر، 2019 کو مختصر حکم نامے کے تحت منظور کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ اہم عناصر جیسا کہ دانستہ جرم، غیرضروری یا غیرقانونی فائدہ اٹھانا، مجرمانہ سوچ اس مرحلے پر سامنے نہیں آئی ہے۔

مفتاح اسماعیل پر جو الزامات تھے وہ ایل این جی ٹرمینل لگانے، کسنلٹنٹس کی تقرری اور کانٹریکٹ دینے کے حوالے سے تھے۔ انہوں نے ایس ایس جی سی بورڈ کے نان ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور بعد ازاں چیئرمین کی تقرری کی۔ بولیوں کا عمل جس سے کانٹریکٹ معاہدے پر عمل درآمد ہوا وہ جس کمپنی کے ذریعے مکمل ہوا تھا اسے حکومت پاکستان کنٹرول کررہی تھی۔ جب کہ یو ایس ایڈ کے تقرر کردہ کنسلٹنٹس نے معاونت فراہم کی تھی۔


فیصلے میں کہا گیا کہ کیو ای ڈی کنسلٹنگ کی تقرری یو ایس ایڈ نے کی تھی، جب کہ میورک ایڈوائزری کا انتخاب کیو ای ڈی کنسلٹنگ نے کیا تھا۔ دونوں کی فیس یو ایس ایڈ نے ادا کی اور اس میں سرکاری خزانے سے کوئی فنڈ نہیں دیا گیا۔ نیب یہ وضاحت کرنے میں ناکام رہا کہ یہ جرائم کس طرح قومی احتساب آرڈیننس کے دائرہ میں آتے ہیں۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ صلاحیت چارجز کے حوالے سے الزامات بظاہر عالمی طریقہ کار کی بنیاد پر عائد کیے گئے تھے۔ اس ضمن میں کوئی ٹھوس شواہد ریکارڈ پر نہیں لائے گئے، جس سے مفتاح اسماعیل کا اس میں ملوث ہونا ثابت ہو۔ اسی طرح ناہی ایسے شواہد ریکارڈ پر لائے گئے کہ انہوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہو۔ فیصلے میں یہ کہا گیا کہ یہ طے شدہ قانون ہے کہ ضمانت کو سزا کے طور پر روکا نہیں جاسکتا۔

ضمانت مسترد کرنے کے لیے لازم ہے کہ جرائم کی ٹھوس بنیاد سامنے ہو۔ ان حالات میں ضمانت مسترد کرنا بطور سزا ہوگا۔ لہٰذا بنچ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وہ ضمانت ملنے کے مستحق ہیں۔ نیب کا کہنا تھا کہ ان کی تقرری بطور ایس ایس جی سی چیئرمین اکتوبر 2014 میں ہوئی تھی اور وہ نومبر 2017 تک اس عہدے پر برقرار رہے تھے۔ انہیں قیمت کے حوالے سے مذاکراتی کمیٹی کا رکن بنایا گیا تھا جو کہ ایل این جی کی قیمت مقرر کی غرض سے تشکیل دی گئی تھی جو کہ قطر سے خریدی جانی تھی۔ نیب نے الزام عائد کیا تھا کہ مفتاح اسماعیل کی بطور ایس ایس جی سی چیئرمین تقرری غیرقانونی طور پر کانٹریکٹ دینے کے لیے کی گئی تھی۔

یعنی ایل این جی سروس معاہدے کے لیے ایسا کیا گیا تھا۔ معاہدے کی منظوری ایس ایس جی سی بورڈ نے 28 جنوری، 2014 کو دی تھی۔ نیب نے اعتراف کیا کہ مفتاح اسماعیل کی بطور ایس ایس جی سی چیئرمین تقرری 8 جولائی، 2014 کو کی گئی تھی۔ تاہم، مفتاح اسماعیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا کہ دوران تحقیقات جب وہ پندرہ روز کے لیے نیب کی حراست میں تھے ان کے سامنے کوئی ٹھوس شواہد نہیں رکھے گئے جو کہ این اے او کے تحت جرم ثابت کرتے ہوں۔ نیب نے بغیر ثبوت ان پر الزامات عائد کیے تھے۔ وہ کسی طور بھی دونوں کنسلٹنٹس کی تقرری کے عمل میں شامل نہیں رہے۔

نا ہی ان کا انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم میں تقرری میں کوئی کردار تھا۔ ان کی تقرری ایس ایس جی سی بورڈ میں نان ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کے طور پر ہوئی تھی اور وہ بطور چیئرمین بورڈ دوسرے ارکان کو فیصلوں کا حکم دینے کے اختیارات سے محروم تھے۔

تازہ ترین