• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک بات ماننی پڑے گی کہ یہ وزیراعظم عمران خان ہی ہیں جنہوں نے اعتراف کیا ہے کہ اُن سے ٹکٹیں اور وزارتیں دینے میں غلطیاں ہوئی ہیں۔ اور کبھی کبھی اُن سے غلط فیصلے بھی ہو جاتے ہیں۔ یہ اعترافِ جرم نہیں بلکہ اظہارِ جرأت ہے۔ آج تک ہمارے ہاں کسی وزیراعظم نے اپنی غلطیوں کا کبھی اعتراف نہیں کیا۔ وزیراعظم کے اِس اعتراف کا مقصد ایک تو اپنی غلطیوں کو ماننا ہے دوسرا اُس سے بھی اہم، ملک کے موجودہ معاشی و سیاسی حالات کی طرف اشارہ ہے۔ اُن سے ٹکٹوں اور وزارتوں کی تقسیم میں ہونے والی غلطیاں ہی ناکامیوں کا باعث بنی ہوئی ہیں لیکن وزیراعظم اب بھی حالات میں سدھار لا سکتے ہیں۔ وہ ان وزرا کو فوری طور پر فارغ کردیں جن کو وزارتیں دینے میں غلطی ہوئی ہے اور ان کی جگہ پارٹی کے اہل اور پرانے نظریاتی اراکینِ اسمبلی کو وزارتیں دے دیں۔ یہی طریقہ پنجاب اور کے پی میں بھی اختیار کر لیں اور اس میں وہ حکومت کو نہیں بلکہ ملک و قوم کی بہتری کو مدنظر رکھیں۔میں نے گزشتہ الیکشن سے بہت پہلے متعدد ملاقاتوں میں جناب عمران خان کو علم الاعداد کی روشنی میں آگاہ کیا تھا کہ برسراقتدار آنے کے بعد ان کو بہت سی مشکلات پیش آسکتی ہیں اور افراد کے انتخاب میں غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ ملکی معاشی اور سیاسی مشکلات کا باعث یہی غلطیاں ہیں۔ افراد کے غلط انتخاب کی وجہ سے وزیراعظم عمران خان کی مشکلات میں روز بروز اضافہ روکنے کا حل یہ نہیں ہے کہ ناراضیوں سے بچنے کے لئے صرف وزارتیں تبدیل کی جائیں۔ اگر اس وقت اراکینِ کابینہ کو دیکھا جائے تو شاید ایک آدھ ہی پی ٹی آئی کا پرانا اور نظریانی رکن نظر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم سے غلط فیصلے آج بھی کرائے جاتے ہیں اور دلچسپ بات یہ کہ وہی لوگ پھر بھی وزیر، مشیر بنے بیٹھے ہیں اور اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں۔ اور اگر ان میں کوئی مخلص ہو اور صحیح بات کرے تو اس پر عملدرآمد کے راستے ہی بند کر دیے جاتے ہیں۔ اس وقت تین اہم ایشوز ہیں۔ معاشی، سیاسی اور سفارتی۔ ملکی معیشت کے جو اعداد و شمار پیش کئے جاتے ہیں وہ اعلاناتی طور پر خوشنما ہو سکتے ہیں لیکن افسوس کہ عام آدمی اُن ثمرات سے محروم ہے۔ اگر کسی ملک کی معیشت میں بہتری آتی ہے تو وہاں کے عام آدمی کو وہ بہتری عملاً نظر آتی ہے۔ کیونکہ وہ براہ راست اس سے مستفید ہوتا ہے۔ وزرائے خزانہ تبدیل ہوئے لیکن بہتری کے کوئی آثار نہیں آئے۔ موجودہ وزیر خزانہ نے تو پہلے ہی معاشی نظام کی ناکامی کا اظہار کیا تھا۔ سنا ہے کہ شاید وہ بھی درکار اہداف حاصل نہیں کر سکیں گے اور شاید ایک بار پھر تبدیلی آجائے۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لئے کوئی جامع منصوبہ کسی کے پاس ہے نہ اس کے لئے موثر اقدامات کئے جا سکے۔ قرضہ ادا کرنے کے لئے قرضہ لینا اور وہ بھی پہلے سے زیادہ شرح پر اور سخت شرائط پر لینا معاشی مہارت نہیں ہے۔ معاشی ماہر تو وہ ہوتا ہے کہ معیشت کی مضبوطی کے لئے ایسے منصوبے بنائے جن سے پیداوار میں اضافہ ہو اور عام آدمی متاثر نہ ہو بلکہ اس کو سہولت ملے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔ سیاسی حالات کو دیکھیں تو کسی طرف استحکام نظر نہیں آتا۔ حکومت کی توجہ عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے مخالفین کو دبانے اور زک پہنچانے پر ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے تین سال ہونے کو ہیں لیکن حکومتی رویہ میں کوئی مثبت تبدیلی نظر آئی نہ بیانات میں۔ بعض حکومتی مشیر ایسے بیانات دیتے ہیں جن سے بہتری کے بجائے ابتری میں اضافہ ہوتا ہے۔ بعض ون مین آرمی قسم کے وفاقی اور صوبائی وزرابھی نمبر بنانے کی غرض سے جلتی پر تیل ڈالنے والے بیانات دیتے رہتے ہیں۔ اس طرح حکومتیں نہیں چلتیں بلکہ چلی جاتی ہیں۔ سفارتی سطح پر کئی مواقع آئے جہاں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا یا مطلوبہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکا۔ حال ہی میں یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد جس میں پاکستان کے قوانین کو مذہبی آزادی اور اس کی بنیادی قدروں سے متصادم قرار دیا گیا ہے، کہا گیا ہے کہ یہاں کا نظام عدل ان قوانین کی زد میں آنے والے افراد کو انصاف فراہم نہیں کر سکا ہے۔ اس قرارداد میں پاکستان پر قدغن لگانے اور بعض مطالبات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ یورپی پارلیمنٹ میں یہ قرارداد بھاری اکثریت سے منظور ہوئی۔ اگر دفتر خارجہ اور وہاں کے ممالک میں متعین پاکستانی سفرا متحرک ہوتے تو ان کو یورپی پارلیمنٹ کے اراکین کے اس ارادے کا پہلے سے علم ہوتا اور وہ ان تمام متعلقہ یورپی ممالک کی حکومتوں کو اصل حقائق سے آگاہ کرتے تو یہ قرارداد رک سکتی تھی یا منظور نہ ہوتی۔ یورپی قرارداد میں کالعدم ٹی ایل پی کی حالیہ تحریک اور فرانس کے سفیر کی ملک بدری کے مطالبے کا عمل دخل بھی ہو سکتا ہے لیکن نہ تو فرانس کے سفیر کو تاحال بےدخل کیا گیا ہے۔ نہ ہی پاکستان میں مذہبی آزادی سے کوئی قانون متصادم ہے۔ پاکستانی عدلیہ بلاامتیاز قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہے۔ جتنی مذہبی آزادی پاکستان میں اقلیتوں کو حاصل ہے شاید کسی اور ملک میں نہیں۔ نہ صرف ان کو مذہبی آزادی حاصل ہے بلکہ ہر تحفظ بھی حاصل ہے لیکن گستاخی کی کسی کو کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یورپی پارلیمنٹ کی قرار داد محض مفروضوں کی بنیاد پر تیار کرکے منظور کی گئی۔ یورپی ممالک میں ان کے مذہب کے خلاف بات کرنا یا گستاخی سنگین جرم ہے اور اس پر سخت سزائیں مقرر ہیں پھر مذہب اسلام کے خلاف گستاخانہ مواد ان کیلئے سنگین جرائم کیوں نہیں۔ یورپی پارلیمنٹ نے فرانس میں گستاخانہ خاکوں کیخلاف اب تک کیا اقدامات کئے ہیں۔ لگتا ہے کہ پاکستان کے خلاف اس قرارداد کے کچھ اور مقاصد ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ اس بارے میں پاکستان کا مضبوط موقف پیش کرکے اس قرارداد کو واپس کرائے۔

تازہ ترین