• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آہ جاں سوز کی محرومی تاثیر نہ دیکھ
ہو ہی جائے گی کوئی جینے کی تدبیر دیکھ
کچھ بھی ہوں پھر بھی دکھے دل کی صدا ہوں ناداں
میری باتوں کو سمجھ، تلخی تقریر نہ دیکھ
(مجروح سلطان پوری)
24اپریل کے دن پاکستان میں جلسوں کا جمعہ بازار لگا ہوا تھا۔ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کا جلسہ، کراچی میں پاک سرزمین پارٹی کا جلسہ اور لاہور میں جماعت اسلامی کا عوامی جلسہ۔ گویا پوری قوم کو جھنجھوڑنے کا پروگرام کروڑوں روپے کی مالیت سے منعقد کئے جانے والے جلسوں کے ذریعے کیا جارہا تھا اور مزید یہ کہ تمام پرائیویٹ (نجی) چینل ان جلسوں کی کارروائی لائیو دکھا رہے تھے۔ بعض چینلز نے تو اپنی اسکرین دو حصوں میں بانٹی ہوئی تھی۔ آدھی اسکرین پر عمران خان کا جلسہ دکھا رہے تھے اور بقیہ آدھی اسکرین پر مصطفٰی کمال کے کمالات عوام تک پہنچائے جارہے تھے۔ جلسوں میں تقریریں گرما گرم تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ صبح تک ضرور کچھ ہوجائے گا مگر میاں صاحب بھی بڑے مضبوط اعصاب کے مالک ہیں تینوں جلسوں کی کارروائی سے ذرا متاثر نہیں ہوئے بلکہ عوامی زبان میں ’’ٹس سے مس‘‘ نہیں ہوئے۔
الٹا مانسہرہ میں جوابی جلسہ کر ڈالا اور تمام اخبارات میں اشتہار چھپوا دئیے کہ پاناما لیک والے آئی سی آئی جے والوں نے میاں صاحب سے معذرت کی ہے یا معافی مانگی ہے کہ ان کا نام غلطی سے لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا۔ اب نکال دیا گیا ہے۔ ان تک جب ہمارے اشتہارات اور دو اخباروں کی خبر پہنچی تو انہوں نے فوراً جواباً عرض کیا کہ حضور غلطی نہیں ہوئی۔ معافی بھی نہیں مانگی۔ آپ کا نام ڈیٹا میں آپ کے ہونہار بچوں کے حوالے سے ہے اور وہ بدستور موجود ہے اور رہے گا۔ گویا ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ شیر والی حکومت نے شیر والی گولی کا کام کیا ہے اور ملکی معیشت کو درست سمت لگانے کی کافی کوشش کی ہے۔ بے شمار ترقیاتی پروگرام شروع کئے گئے ہیں جس کے فوائد بقول حکومت عوام کو 2018ء تک نظر آئیں گے۔ پاک چائنا کاریڈور سے ہونے والی معاشی ترقی کے علاوہ ٹرانسپورٹ، انرجی اور موٹر وے کے پروجیکٹ قابل ذکر ہیں۔ ملکی ترقی میں صاحبان اقتدار کی ذاتی ترقی جڑی ہوئی ہے یا پنہاں ہے۔ آج کل سوشل میڈیا میں قطر کے حکمران کی طرف سے 43ملین پائونڈ کا تحفہ ون ہائیڈ پارک حکمران خاندان کے فرزند ارجمند کے نام ہے اور لوگوں نے پراپرٹی کے تمام کاغذات انٹرنیٹ پر لگادئیے ہیں جو انتہائی تیزی سے وٹس اپ پر گردش کررہے ہیں۔ اب پاکستان کی عوام 19؍سال تک اس پراپرٹی کی قیمت ادا کرتی رہے گی اور سستی گیس قطر سے خریدتی رہے گی۔
مجھ سے ایک بھولے بھالے معیشت کے ماہر شخص نے کہا کہ پاکستان کی معیشت اور قومی خزانے میں تو اتنا دم ہی نہیں ہے تو پھر یہ اربوں روپے یکے بعد دیگرے حکمران پارٹیاں کس طرح پاکٹ کر لیتی ہیں۔ چونکہ مجھے بھی معیشت یا اکنامکس کے بارے میں کچھ خاص معلومات نہیں ہیں لہٰذا میں نے کہا کہ یہ پیسے باہر سے جو قرضے آتے ہیں وہ پورے کے پورے ہضم ہوجاتے ہیں یا بیرون ملک جو معاہدہ کرنے پر کک بیک یا کمیشن لی اور دی جاتی ہے ہم اور ہمارے ملک کے سادہ لوح عوام سالہا سال تک قسطوں میں ادا کرتے رہتے ہیں۔ کمیشن لینے والے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں آئندہ15 اور 20سال کے معاہدہ کرلیتے ہیں اور ساری کمیشن یک مشت لے لیتے ہیں۔ معاہدہ کرنے والے یک مشت کمیشن دے کر آئندہ پندرہ یا بیس سال تک عوام سے وصول کرتا رہتا ہے۔ اس کا گھر بھی پورا ہوجاتا ہے اور ہمارے حکمرانوں کے خزانے بھی بھر جاتے ہیں۔ جب جیب میں پیسہ ہو تو چہرے پر اطمینان خود بخود آجاتا ہے اور انسان ہشاش بشاش لگتا ہے۔ اور اعتماد اندر سے آجاتا ہے۔ پیسے جیب میں ہوں تو سیاست کرنے کا مزہ بھی آتا ہے۔ ہمارے ملک میں کرپشن کی معلومات کیلئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھے جاتے ہیں۔ مجھے ایک شخص نے کہا کہ آپ سپریم کورٹ کے ججوں سے کہیں کہ دبئی میں کسی بھی پاکستانی یا انڈین ٹیکسی ڈرائیور سے کہیں کہ اسحاق ڈار کے بچوں کا پلازہ کونسا ہے۔ وہ خود ہی آپ کو لے جائے گا۔ پھر پلازہ دیکھ کر بتادیں کہ یہ کیسے بنتا ہے۔ ہمارے ہاں اس بات کا بھی ثبوت مانگا جاتا ہے کہ ’’سورج مشرق سے ابھرتا ہے‘‘ جبکہ پوری دنیا میں اسے یونیورسل ٹرتھ کہتے ہیں اور ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جو بات زبان عام ہو یعنی کامن نالیج میں ہو اسے بھی کمیشن میں ثابت کرنا پڑتا ہے۔ میں نے اپنے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ ہمارے ملک میں حکومتیں جلسوں جلوسوں سے نہیں جاتیں۔ جلسے جلوس صرف سازگار ماحول پیدا کرتے ہیں باقی حکومت ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک غیبی ہاتھوں سے جاتی ہے۔ پہلے زمانے میں 58(2)B کے سہارے کرپٹ حکومتیں توڑ دی جاتی تھیں۔ مگر اب اس کا سہارا باقی نہیں ہے۔ اب ہمت کرنی پڑے گی ورنہ 2018ء تک انتظار فرمائیں اور اگر حالات یہی رہے تو 2018ء کا الیکشن بھی میاں صاحب ہی جیتیں گے اور چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن کر ورلڈ ریکارڈ قائم کریں گے۔
میرا سیاستدانوں کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ جلسے جلوس کرکے اپنا اور قوم کا پیسہ اور وقت برباد نہ کریں۔ میاں صاحب استعفٰی نہیں دیں گے۔ ’’کرلو جو کرنا ہے‘‘ ’’یہاں تو ایسے ہی ہوگا‘‘۔ اس وقت پاکستان کے مظلوم عوام مرزا غالب کے الفاظ میں یوں گویا ہیں۔ ؎
نیک ہوتی میری حالت، تو نہ دیتا تکلیف
جمع ہوتی میری خاطر، تو نہ کرتا تعجیل
قبلہ کون و مکان! خستہ نوازی میں یہ دیر!
کعبہ امن و امان! عقدہ کشائی میں یہ ڈھیل!
تازہ ترین