• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے چھوٹی جماعت کے بچوں کی نصاب کی کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے، ان کتابوں کی سب سے دلچسپ بات یہ ہوتی ہے کہ ان کا حقیقی زندگی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا ،دوستوں کو لکھے جانے والے نمونے کے خط ،تاریخی واقعات کا بیان،معاشرتی آداب ،روز مرہ کی گفتگو اوردیہاتی زندگی کی رومانوی تصویر کشی اس انداز میں کی جاتی ہے کہ لگتا ہے جیسے کسی دوسرے سیارے کی بات ہو رہی ہو۔کسی دوست کے نام خط لکھنا ہو تو کچھ اس طرح شروع کیا جاتا ہے،”پیارے امجد! امید ہے تم خیریت سے ہوگے ۔جیسا کہ تمہارے علم میں ہے اگلے برس ہماری دسویں جماعت کے امتحانات ہوں گے ،میں نے ابھی سے ان امتحانات کی تیاری شروع کر دی ہے ،ابا جان نے وعدہ کیا ہے کہ اگر میں امتحان میں کامیاب ہو گیا تو وہ مجھے سائیکل انعا م میں دیں گے ، تم بھی اس امتحان میں کامیابی کیلئے خوب دل لگا کر محنت کرو،خدا ہمیں کامیاب کرے، آمین ۔تمہارا دوست،اسلم۔“ لاحول ولا۔مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ ان نصابی کتابوں میں امجد اور اسلم کے علاوہ کسی کی دوستی کیوں نہیں ہو سکتی! ویسے بھی اس قسم کا خط آج کل کون لکھتا ہے، اول تو خط لکھا ہی نہیں جاتا ،ای میل کی جاتی ہے ،ایس ایم ایس سے کام چلایا جاتا ہے بلکہ viberاستعمال کیا جاتا ہے ،لہٰذا امتحان میں ای میل لکھنے سے متعلق سوال آنا چاہیے مگر ہمارے نصاب میں ای میل کا ذکر تب آئے گا جب لوگ مریخ پر سیٹل ہو چکے ہوں گے۔
پاکستان کی تاریخ کو لے لیں ۔جس قدر مضحکہ خیز انداز میں تاریخ کا بیان ہوتا ہے اسے پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے پاکستان میں دودھ کی نہریں بہتی رہی ہیں اور آئندہ ان نہروں میں شہد مکس کرکے عوام کو پلایا جائے گا۔پاکستان ٹوٹنے کا ذکر اس انداز میں کیا جاتا ہے گویا ملک نہیں ٹوٹا تھا کوئی گلاس تھا جو جنرل یحییٰ کے سرہانے سے گر کر ٹوٹ گیا اوردیہاتی زندگی کی تو کیا ہی بات ہے ،اس کا نقشہ یو ں پیش کیا جاتا ہے جیسے صرف دیہات میں ہی گھبرو جوان بستے ہیں ،انہی کی انا ہوتی ہے ،وہی غیور ہوتے ہیں ،ان کی غربت شہریوں کی امارت سے بہتر ہوتی ہے اوران کے علاوہ کسی کو محنت کی عادت نہیں ہوتی۔بقول شفیق الرحمن ،جغرافیے کی کتابوں میں یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ دفتروں اور کارخانوں میں کوئی کام نہیں کرتا،انسان صرف کھیتوں میں کام کرتے ہیں اور وہاں جو کچھ اگاتے ہیں وہ دساور بھیج دیا جاتا ہے۔ نصابی کتب میں دیہات کے میلوں ٹھیلوں ،کبڈی کے مقابلوں ،گائے بیلوں کے ناچ ،خالص خوراک اور آب و ہوا کا تذکرہ پڑھ کر کسی بھی انسان کا دل کر سکتا ہے کہ وہ فوراً شہر سے گاؤں منتقل ہو جائے ،نہ جانے یہ کون لوگ ہیں جو آئے دن دیہات سے شہروں میں نقل مکانی کرتے ہیں!لگتا ہے انہوں نے سکول میں وہ کتابیں نہیں پڑھیں جن میں دیہاتی زندگی کے فوائد لکھے ہوتے ہیں ۔نصابی کتب میں روز مرہ کی زندگی کا حال بھی عجیب ہی بیان کیا جاتا ہے ،کہانیوں میں پھلوں اور سبزیوں کے وہ نرخ لکھے ہوتے ہیں جو زمانہ قبل از مسیح میں تو رائج ہوں گے مگرآج کل ان کا بیان کسی لطیفے سے کم نہیں ۔حقوق و فرائض اور اپنی مدد آپ کے تحت گلی محلوں کی صفائی ستھرائی کا خیا ل رکھنے کی کہانیاں یقینا سبق آموز ہوتی ہیں اور بچوں کے نصاب میں شامل ہونی چاہئیں مگر انہیں پڑھ کر یہ نہیں لگنا چاہیے کہ ان کہانیوں کے کردار کسی دوسری دنیا کی مخلوق ہیں ۔
نصابی کتب میں دانستہ طور پر ان معاملات کی پردہ پوشی کی جاتی ہے جو کسی بھی انداز میں متنازعہ ہوں، یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر اس بات کی کیا تُک ہے کہ ان خطرات کے بارے میں بھی طلبا کو لا علم رکھا جائے جو روز روشن کی طرح عیاں ہیں ۔دہشت گردی کا معاملہ ان میں سے ایک ہے ۔جس ملک میں طالبات کی بس میں دھماکہ کرکے چودہ بچیوں کے جسموں کے چیتھڑے اڑا دئیے جائیں اور جو بچ کر ہسپتال پہنچیں وہاں انہیں نرسوں سمیت گولیوں سے بھون دیا جائے ،اس ملک میں دہشت گردی کے متعلق طلبا کو لاعلم رکھنے کی کوشش کرناعبث ہے۔مجھے کسی قسم کی کوئی خوش فہمی نہیں کہ دہشت گردی سے متعلق مضامین نصاب میں شامل کئے جائیں گے ،لیکن اگر ایسا ہو بھی گیا تو ہمارے نصاب کا مضحکہ خیز انداز بیان دیکھتے ہوئے غالبا ً اس قسم کا باب معاشرتی علوم یا پاکستان سٹیڈیز کی کتاب میں شامل کیا جائے گا:”پیارے بچو! پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک جنگ لڑ رہا ہے ،یہ جنگ ہمارے فوجی جوان ملک کی شمالی سرحدو ں پر لڑ رہے ہیں ،ہمارا مقابلہ ایک بزدل دشمن سے ہے جسے ہماری فوج ،پولیس اور سیکورٹی کے اداروں نے تقریباً پسپا کر دیا ہے ،اپنی شکست کو سامنے دیکھ کر دشمن حواس باختہ ہو چکا ہے اور اسی لئے آئے دن نہتے اور بے گناہ عوام کو دہشت گردی کا نشانہ بناتا ہے ۔عوام نہایت جواں مردی سے اس دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔حکومت نے جنگ بندی کی خاطر دہشت گردوں کی مذاکرات کی دعوت قبول کی تھی مگر اس کا مثبت جواب نہیں دیا گیا ۔بعض حلقے ان مذاکرات کی مخالفت کرتے ہیں ،ان کا استدلال یہ ہے کہ جو دہشت گرد معصوم لوگوں کی جان لیتے ہیں ان سے مذاکرات کس ایجنڈے کے تحت ہو سکتے ہیں !حکومت ان مذاکرات کی حامی ہے اور اس کا خیال ہے کہ مذاکرات ہی دہشت گردی کے مسئلے کا حل ہیں …“ اس باب کو اسی بے معنی انداز میں مزید آگے بھی کھینچا جا سکتا ہے ،بس صرف دو باتوں کا خیال رکھنا ہو گا، ایک،کوئی ایسی بات نہ لکھ دی جائے جس سے پتہ چل سکے کہ ہمارا دشمن کون ہے ،دوسرے ،عبارت جس قدر مبہم ہو گی نصاب کے لئے اتنی ہی موزوں تصور کی جائے گی
نصابی کتب کے آخر میں طلبا کی صلاحیت کو جانچنے کے لئے سوالات بھی دئیے جاتے ہیں جن کے جوابات کے لئے زیادہ دماغ نہیں کھپانا پڑتا کیونکہ بازار میں حل شدہ کتب ( Key)آسانی سے دستیاب ہیں ۔اگر اس باب کے آخر میں سوال دیا جائے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کا کیا فائدہ ہوگااوران سے مذاکرات کس ایجنڈے کے تحت کئے جا سکتے ہیں ،تو خاکسار کی تیار کردہ Keyمیں جواب کچھ یوں ہوگا:”دہشت گردں ہما رے بھائی ہیں ،ان سے مذاکرا ت کے نتیجے میں یہ باتیں منوائی جا سکتی ہیں کہ وہ مہینے میں ایک سے زیادہ خود کش حملہ نہیں کریں گے اور اس حملے میں زیادہ سے زیادہ پچیس ہلاکتیں ہونگی ،اگر ایسے کسی حملے میں پچیس سے کم لوگ مار ے جاتے ہیں تو دوسرا حملہ کیا جا سکتا ہے ۔پانچ سال سے کم عمر بچوں کو بم دھماکوں میں ہلاک نہیں کیا جائیگا۔لوگوں کو صرف خود کش دھماکوں میں ہی مارا جائے گا ،ان کو ذبح کر کے ویڈیو اپ لوڈ نہیں کی جائے گی ۔طالبات کو ہلاک کرنے کیلئے صرف پردہ پوش عورت کو بمبار کے طور پر استعمال کیا جائیگا۔ان مطالبات کے بدلے میں حکومت عوام میں دہشت گردوں سے متعلق رائے عامہ ہموار کر ے گی اور ایسے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کی جائیگی جو دہشت گردوں کی مذمت کرنے کی بجائے انہیں غیور عوام کی جنگ کا نام دیتے ہیں۔ حکومت ہر دوسرے روز دہشت گردوں سے مذاکرات کی منتیں کرے گی اور عوام میں یہ تاثر پختہ کرے گی کہ ریاست کا انتظام صرف دہشت گردں کے ترلے کر کے ہی چلایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جو مزاج یار میں آئے ۔“مجھے یقین ہے کہ جس روز حکومت نے دہشت گردی کا موضوع نصاب میں شامل کر دیا اس روز دہشت گردی ختم ہو جائیگی کیونکہ ہماری نصابی کتب میں وہ چیز شامل نہیں ہو سکتی جسکا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق ہو!
تازہ ترین