تھائی لینڈ میں، عہد حاضر کے جن ادیبوں کی خدمات کا اعتراف ملکی سطح پر کیا گیا، ان میں سرفہرست، بچوں کے معروف ادیب’’ماکوت اونرودی‘‘ ہیں۔ کئی دہائیوں سے کام کرنے والے اس ادیب نے صرف تخلیق پر توجہ نہیں کی، بلکہ اشاعتی صنعت میں بھی اپنی جدت طراز سوچ کی بدولت انقلاب لائے۔ موجودہ دور میں جہاں نئی نسل ٹیکنالوجی کے بے پناہ استعمال اور سوشل میڈیا کی عادی ہونے کی وجہ سے کتابوں سے دور ہو رہی ہے، وہاں انہوں نے چھپی ہوئی کتابوں کو فروغ دینے اور ان کی اہمیت بڑھانے کے لیے ایک نیا طریقہ نکالا، وہ کتابوں کو دیدہ زیب کرکے شائع کرنا تھا۔
وہ کتابوں کے سرورق، کپڑے پر ایسے کاڑھتے ہیں، جیسے کپڑوں اور چادروں پر ہمارے ہاں ڈیزائننگ ہوتی ہے۔ یہ جدید طرز کی کتابیں، لکھائی اور کڑھائی دونوں فنون کا امتزاج و نمونہ ہیں۔ ’’ماکوت اونرودی‘‘ کو تھائی زبان کے ادب میں، بچوں کے شعبے میں طویل خدمات پر بہت سراہا جاتا ہے۔ انہوں نے ادبی دنیا میں اپنے اصل نام کے علاوہ دو قلمی ناموں سے بھی لکھا، وہ نام’’نیپان‘‘ اور’’واوپرائے‘‘ ہیں۔ وہ 1950 کو تھائی لینڈ میں پیدا ہوئے۔ 1973 میں لکھنے کی پیشہ ورانہ ابتدا کی۔ گزشتہ چار دہائیوں سے ادب تخلیق کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف رسائل و جرائد کے لیے بھی کام کر رہے ہیں، جن میں جاپان کا ایک مشہور رسالہ بھی شامل ہے۔
انہیں تھائی لینڈ کے نیشنل بک ایوارڈ سمیت کئی اور اہم اعزازات بھی دیے جاچکے ہیں۔ انہوں نے درجن بھر کتابیں لکھیں، جن میں فکشن اور نان فکشن دونوں شامل ہیں۔ ان کا سب سے مشہور ناول’’بٹر فلائی اینڈ فلاورز‘‘ یعنی’’تتلی اور پھول‘‘ہیں، جس کا تھائی زبان میں عنوان ’’پی سوآلے ڈوکمائی‘‘ ہے۔ ان کے اس مشہورِ زمانہ ناول کا مرکزی خیال، ایک مسلمان غریب بچہ کی زندگی میں جدوجہد ہے، وہ ذہین ہے، مگر غربت اس کے خوابوں کی راہ میں بار بار آتی ہے۔
وہ اسکول میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے، لیکن فیس نہ ہونے کی وجہ سے اس کو اسکول چھوڑنا پڑتا ہے، پھر وہ فیصلہ کرتا ہے کہ غریب والد کا ہاتھ بٹائے گا تاکہ اس کے باقی بہن بھائی تعلیم حاصل کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے وہ محنت کرتا ہے اور زندگی کے نشیب وفراز سے گزرتا ہے۔ یہ ناول تھائی لینڈ میں بہت مقبول ہوا، اس کو بدھ مت کے پیروکاروں اور مسلمانوں کے مابین بھی ایک بھائی چارے کی کڑی کے طور پر بھی دیکھا گیا۔ یہی وجہ ہے، اس ناول کا شمار، دور حاضر کے مقبول ترین ناولوں میں ہوتا ہے۔ اس ناول کی تھائی زبان میں اشاعت 1978 میں ہوئی، انگریزی زبان میں 2011 کو اس ناول کا ترجمہ ہوا، جبکہ دیگر کئی اور زبانوں میں بھی اس کے تراجم ہوچکے ہیں۔ 1985 میں اس ناول پر بنی ہوئی فلم نمائش کی گئی۔
اس فلم کے ہدایت کار’’ای تھانا مکداس نیت‘‘ ہیں، جو تھائی لینڈ کی فلمی صنعت کا ایک اہم نام ہیں، انہوں نے ہی فلم کا اسکرپٹ لکھا، جبکہ فلم کے اداکاروں میں کمسن لڑکے کا کردار’’سوریا یووسانگ‘‘ نے بہت کامیابی سے نبھایا، دیگر فنکاروں نے بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس فلم کو تھائی لینڈ میں تو مقبولیت ملی ہی، لیکن، عالمی سینما میں بھی اس فلم نے اپنے ہونے کا احساس دلایا، یہ اس کی بڑی کامیابی تھی۔ ناول اور فلم، دونوں ایک ایسے تھائی لینڈ کی منظرکشی کرتے ہیں، جہاں ایسے انسان بستے ہیں، جن کو دو وقت کی روٹی کمانا دو بھر ہے، وگرنہ دنیا کے سامنے ایک گلیمر سے بھرپور تھائی لینڈ کی تصویر ہی موجود ہے، مگر یہ ناول اور فلم اس ملک کی اصل اور اکثریتی آبادی کی حالت زار کو بیان کرتی ہے۔