• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’عیدِ سعید‘‘ روزے داروں کے اعزاز و اکرام اور انعام کا دن

عبدالاحد حقّانی

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ فخر دو عالم، حضرت محمد ﷺ نے ’’عیدالفطر کی عظمت و اہمیت کے حوالے سے ارشاد فرمایا:’’جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام آسمانوں پر ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ انعام کی رات سے لیا جاتا ہے‘‘۔ چناں چہ جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتا ہے، کیا بدلہ ہے اس مزدور کا، جو اپنا کام پورا کرچکا ہو، فرشتے عرض کرتے ہیں کہ ہمارے معبود اور ہمارے مالک، اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے، تو حق تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتا ہے کہ اے فرشتو، میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے ان بندوں کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے عوض اپنی رضا اور مغفرت عطا کردی۔بندوں سے خطاب کرکے ارشاد ہوتا ہے، میری عزت کی قَسم اور میرے جلال کی قَسم، میں تمہیں مجرموں کے سامنے رسوا نہ کروں گا، بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جائو، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔‘‘ (الترغیب و الترہیب)

دنیا کی ہر قوم اور ہر مذہب وملّت کے پیروکار سال کے پورے مہینوں میں چند دن ایسے بھی مناتے ہیں،جن میں انہیں مسرّت و شادمانی اور فرحت و سرورحاصل ہو۔ ان دنوں کی آمد، قوم کے تمام افراد کے لیے عیش و نشاط کا باعث ہوتی ہے۔ چناں چہ یہودی، عیسائی، سکھ، ہندو، پارسی اور مجوسی غرض یہ کہ دنیا کے مختلف مذاہب کے ماننے والے کسی نہ کسی دن اپنا خاص تہوار مناتے ہیں۔ اس طرح مسلمان بھی جشنِ مسرّت مناتے ہیں، مگر اُن کے جشن مسرّت منانے کا انداز یکسر منفرد، اور جدا ہوتا ہے۔

عیدالفطر امّتِ مسلمہ کے لیے جشن کا ایک مخصوص دن ہے۔ یہ دن اس ماہِ مبارک، رمضان کے اختتام پر طلوع ہوا ہے، جو روحانی بہار کا مہینہ تھا، اس مہینے کے آخری عشرے میں نور وہدایت کی کتابِ مبین (قرآن مجید) عطا کی گئی۔ عالمِ انسانیت کے لیے آخری مینارۂ نور اورسلامتی والی یہ کتاب ماہِ رمضان کی جس رات کو نازل ہوئی، وہ رات بھی اپنی شان وشوکت کے اعتبار سے ہزار مہینوں سے بہتر قرار دی گئی۔

بے شمار خصوصیتوں اور برکات کے باعث پرودگارِ عالم نے رمضان المبارک کو تمام مہینوں سے افضل قرار دیا اور ہر مسلمان پر پورے مہینے کے روزے فرض قرار دیے گئے۔اس لحاظ سے وہ لوگ بڑے خوش نصیب قرار پاتے ہیں، جو رمضان المبارک کو اس کے پورے آداب کے ساتھ عبادت و ریاضت کے ساتھ گزار تے ہیں۔عید مسلمانوں کے لیے اس اعتبار سے جشنِ مسرّت کا دن ہے کہ اس سے ایک ہی دن قبل وہ ماہِ مبارک تھا، جس میں قرآنِ حکیم نازل ہوا۔ اس اعتبار سے یہ یومِ تشکّر ہے کہ اُس پروردگارِ عالم نے ہم مسلمانوں کو اس ماہِ مبارک میں روزے رکھنے اور عبادت و اطاعت کی توفیق دی۔شریعت میں عیدالفطر کی نماز کو واجب ٹھہرایا گیا ہے۔ صحیح بخاری میں حضوراکرمﷺ کی حدیث ہے کہ اس دن کو ہم نماز سے شروع کرتے ہیں۔

عیدالفطر کی نماز، دراصل اللہ کے حضور، اس کے بندوں کی طرف سے اظہارِ تشکّر کی دورکعات کا نذرانہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے ایّام میں انہیں اپنے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ یہ دن اتحاد و یگانگت، ایثار و ہمدردی، نیاز مندی، اخوت و محبت اور مسرّت و شادمانی کے اظہار کا ہے، لہٰذا اس دن کو اسی انداز سے منانے کا حکم ہے۔ اس لیے یہ وضاحت بھی کردی گئی کہ خبردار، سرِغرور کسی حال میں بھی بلند نہ ہو، بلکہ اپنے غریب اور مسکین بھائیوں کو بھی اپنے ساتھ اس جشنِ مسرّت میں ضرور شریک کرو اور وہ اس طرح کہ نمازِ عید سے قبل صدقۃ الفطرادا کیا جائے، تاکہ وہ تمہارے روزوں کی خامیوں کا کفّارہ بن جائے اور امّت کے غرباء اور مساکین بھی تمہارے فطرانہ کی بدولت اس جشنِ تشکّر و مسرّت کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں۔ اس جشنِ مسرّت میں مسلمانوں کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے کھائیں پئیں، مگر کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں، جو مسلمانوں کے اخلاقی معیار، دینی اقدار اور شان کے خلاف ہو۔

یہ یاد رہے کہ عید الفطر کے دن فجر کا وقت ہوتے ہی صدقۃ الفطر واجب ہوجاتا ہے اور اسے عیدگاہ جانے سے پہلے ادا کرنا لازمی ہے۔ صدقۃ الفطر کے مستحق وہی لوگ ہیں، جو زکوٰۃ لینے کے مستحق ہیں۔ یہ ہر اُس مسلمان پر واجب ہے جس پر زکوٰۃ واجب ہو یا اس پر زکوٰۃ تو واجب نہیں، لیکن ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال و اسباب اس کے پاس موجود ہو، جتنی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ اس پر بھی صدقۃ الفطر واجب ہوگا۔اس لحاظ سے صدقۃ الفطر کے واجب ہونے کادائرہ زکوٰۃ کے وجوب سے ذرا وسیع ہے ۔ 

اس سے شریعت کامنشاء بہ خوبی واضح ہوتا ہے کہ اس دن کوئی بھی حاجت مند، ہم سے پیچھے نہ رہے۔صدقۃ الفطر یا فطرانہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ اپنے لیے تو سب جیتے ہیں، حقیقی جینا وہ ہے جو دوسروں کے لیے ہو۔اسلام صاحب ثروت مسلمانوں کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ معاشرے کے بے آسرا اور مفلوک الحال طبقے اور معاشی طور پر بد حال مسلمانوں کی بھرپور مدد کریں اور ان کا سہارا بنیں۔ یہی اسلامی طرزِ معاشرت کی بنیاد اور اسلامی فلسفۂ عبادت و نظام حیات کی حقیقی روح ہے۔

تازہ ترین