تحریر : سیدہ تحسین عابدی
بلاول بھٹو زرداری جوملک کی معیشت، سیاست، جمہوریت اور خارجہ امور سمیت ملک کے تمام مسائل اور وسائل اور حکومت وقت کے اقدامات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے پی ڈی ایم بنوائی اور حکومت پر سخت دبائو بھی ڈالا لیکن غیر جمہوری عمل میں پی ڈی ایم کا ساتھ بھی نہیںدیا۔اس وقت ملک میں پیپلزپارٹی کی اہمیت تیزی سے بڑھ رہی ہے بلاول بھٹو مستند اور منجھے ہوئے سیاست داں کی حیثیت سے ابھر رہے ہیں۔ جس میں ان کی اپنی صلاحیتوں کے علاوہ اپنے والد آصف علی زرداری کے تجربے والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے خون و تربیت اور نانا ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی زندگی اور ان کے نقش قدم پر چلنے والی خصوصیات بھی شامل ہیں۔ حال ہی میں بلاول بھٹو نے وزیراعظم عمران خان کے غلط فیصلوں کے اعتراف اور آئی ایم ایف کی شرائط پر نئے وزیر خزانہ شوکت ترین کے تحفظات پر بھی سیرحاصل گفتگو کرکے حکمرانوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ بلاول بھٹو نے کھل کر انکشاف کیا کہ عمران خان نے 25؍ سال کی جدوجہد کے بعد ہر پاکستانی کو فی کس پونے دو لاکھ کامقروض کردیا۔ ان کی معاشی پالیسیاں افسوسناک اور ہر پاکستانی کےلئے لمحہ فکریہ ہے۔ پی ٹی آئی گورنمنٹ نے قرضوں کے خلاف جھوٹی مہم چلا کر اب تک 33؍ ارب ڈالر سے زائد کا قرضہ لے لیا ہے۔ قرضوں کی سود کی وجہ سے تنخواہوں کی ادائیگی کے بعد ترقیاتی بجٹ تو درکنار رفاہی بجٹ کےلئے بھی حکومت کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ جو قوم کے لئے الارمنگ سچویشن ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کفایت شعاری کا درس دینے والے عمران خان کی حکومت کے شاہانہ اخراجات 28؍ سالہ ملکی تاریخ میں سب سےزیادہ ہوچکے ہیں۔ عوام کومعاشی ٹیم کا لالی پاپ دینے والےعمران خان کی حکومت سخت شرائط پر قرضے لیکر اپنی آمدنی سے 10؍ کھرب زیادہ خرچ کرچکی ہے۔ نرخوں میں سیکڑوں فیصد اضافے کے بعد بھی صرف بجلی کےشعبے میں ڈھائی کھرب اور گیس کے شعبے میں گردشی قرضہ 350؍ ارب روپے سے زیادہ ہوچکا ہے۔ کبھی قرض نہ لینے کا اعلان کرنے والے عمران خان کی نو ماہ کی حکومت میں ڈھائی کھرب پر مشتمل ملک خزانے کا 82؍ فیصد حصہ قرضوں کی ادائیگی میں صرف کردیا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کی حالت زار یہ ہے کہ عوام اور تاجروں کے ٹیکسوں کے 710؍ ارب روپے واپس نہ کرکے ایک نیا گردشی قرضہ پیدا کردیاہے جبکہ 650؍ ارب کے ترقیاتی پروگراموں میں سے حکومت کا مالی سال کے گیارہ ماہ میں بھی صرف 40؍ فیصد خرچ کرے گی تو معاشی ترقی کے اہداف کیسے پورے ہوں گے۔ بلاول بھٹو نے یہ سب بے نقاب کردیا کہ اعلان کردہ پیکیج ڈھونگ ہیں۔ کراچی کے لئے پہلے 162؍ ارب کا پیکیج اس کے بعد 1100؍ ارب کا پیکیج اور سکھر میں 446؍ ارب کے وزیراعظم کے اعلانات تسلی و تشفی کے لئے ہیں۔ معاشی صورتحال اور بلاول بھٹو کے حقائق نامہ عوام کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ عوام کے لئے سندھ کی سطح پر بہتر کام کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں۔ یکم مئی کو مزدوروں کےعالمی دن کے موقع پران کا مزدوروں کے لئے خدمات جاری رکھنے کا اعلان 2021ء کے مزدور ڈے کے موقع پر بے نظیر مزدور کارڈ کااجراء کرنے کا اعلان بہت خوش آئند ہے۔ ان کا یہ اعلان کہ جو فوائد پہلے صنعتی مزدوروں کو ملا کرتے تھے اب نجی اور زرعی شعبہ اور سیلف ایمپلائیڈ سمیت تمام مزدوروں کودیئے جائیں گے۔ پاکستان کی تاریخ میں بہترین فیصلوں میں سے ایک ہے اور اس سے مزدوروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ پی پی پی بنیادی طور پر محنت کشوں، غریبوں اور روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے پر محیط جماعت ہے جوروزگار دیتی ہے اور عوام کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ ملک کی واحد جماعت ہے جس نے میثاق جمہوریت بھی کیا اور آئین پاکستان کے ساتھ صوبوں کو آٹھویں ترمیم سے خودمختاری دی۔ انہوں نے مزدور کارڈ کا صرف اعلان نہیں کیا بلکہ اس کی تقسیم بھی کی۔ بلاشبہ صوبائی وزیر محنت سعید غنی نے اپنے چیئرمین کے ویژن کوآگے بڑھا کر بہترین روایت قائم کی۔ پیپلزپارٹی نے ہر مشکل وقت میں عوام کا ساتھ دیا ہے وطن کارڈ ہویا بے نظیر کارڈ، ڈیزاسسٹر ہو یا قدرتی کوئی اور آفات یہی جماعت متحرک اورعوام کو ریلیف دیتی نظر آئے گی۔ چائلڈ پروٹیکشن پر بھی اس کا کام نمایاں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے جزائر کے معاملے پر جس طرح وفاق سے مقدمہ لڑا، جزائر کو بچا کر سندھ کی رٹ قائم کی اسی طرح وہ اب سندھ کے پانی کے مسائل پر وفاق سے نبردآزما ہیں۔ انہوںنے و اضح طور پر کہا ہےکہ سندھ کے پانی کی کٹوتی کسی صورت برداشت نہیںکریں گے۔ سندھ میں مردم شماری کے مسئلے پر انہوں نے اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے جس طرح لڑائی لڑی ہےاس کانتیجہ ہے کہ اگلے سال دوبارہ مردم شماری کرائی جائے گی۔ مردم شماری کے پانچ فیصد آڈٹ اور سپریم کورٹ کے حکم پرعمل کرنے کے بجائے وفاق اور وفاقی جماعت کے اتحادی جو بڑے بڑے دعوے کرتے رہے ہیں مردم شماری کو وفاقی کابینہ سے منظورکرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔ جنہیں حکومت چھوڑ کر عوام کے درمیان آجانا چاہئے تھا لیکن پیپلزپارٹی جسے شہری اوردیہی کی چکی میں پیس کر سازش کے ذریعے کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کورونا اور معاشی صورتحال کو سب سے بہتر لیکر چلی ۔ ریکوریز میں بھی سندھ نے نتیجہ خیز رزلٹ دیئے اور گزشتہ روز وزیراعلیٰ سندھ نے اس کا اعتراف بھی کیا کہ ہم نے کراچی پر کم رقم خرچ کی۔ لیکن کراچی کے بلدیاتی اداروں کو جو رقوم دی گئیں ان کا صحیح استعمال نہ ہونا سابقہ بلدیاتی قیادتوں کی نا اہلی میں شمار ہوتاہے۔ این ایف سی ایوارڈ میں ہر سال کمی نے بھی سندھ حکومت کو مشکلات کا شکار کیا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر سندھ حکومت کی کارکردگی دیگر صوبوں سےبہتر ہے۔ ایک سازش کے تحت لسانی اور نئے صوبوںکا شوشہ پیپلزپارٹی کو ہدف تنقید بنانا وفاق اور ایک منظم سازش کا حصہ نظر آتاہے۔ بلاول بھٹو نے جمہوریت کےلئے ماں اور نانا کے علاوہ خاندان کی قربانی تو دی ہی ہے لیکن اسمبلیوں سے باہر نہ آکر اور جمہوریت کی نرسری کو پروان چڑھانے کےلئے جومنصوبے کارفرما رکھے ہیں اس سے تحریک انصاف کی حکومت اپنے ہی جال میں پھنستی جارہی ہے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا اسلام آباد کی سینیٹ کی نشست، اپوزیشن لیڈر سینیٹ بننا اور انہیں سینیٹ کی چیئرمین شپ سے گیم پلان کے تحت ہروانا بھی تاریخ کے چند ابواب میں سے ایک ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جیل اور صعوبتیں پی پی پی کی لیڈر شپ اور کارکنان سے زیادہ کسی نے نہیں جھیلی ۔ دانش مندانہ فیصلوں اور گڈگورننس کےلئے بلاول بھٹو اور ان کی ٹیم بہترین لیڈرز کے طور پر ابھر کر آئے ہیں۔ شہری اور دیہی کی تفریق ان کے درست فیصلوںکی وجہ سے ختم ہورہی ہے۔ ملیر اور این اے 249؍ سے کامیابی، ایم کیوایم پاکستان، اے پی ایم ایس او، پی ایس پی، مہاجر قومی موومنٹ، تحریک انصاف، فنکشنل لیگ سمیت مختلف جماعتوں سے اردو بولنے والوں کی پیپلزپارٹی میں آمد اور اعتماد اس بات کی غمازی کررہاہے کہ سندھ سے نفرت کی سیاست ختم ہورہی ہے اور پیپلزپارٹی کی کراچی میں جڑیں مضبوط ہورہی ہیں۔ کراچی کی اسٹیک ہولڈرز جماعتیں پانچویں اور چھٹے نمبر پر آرہی ہیں۔ پارٹی سربراہان انتخابات ہار رہے ہیں۔ یہ کراچی کے عوام اور بالخصوص نوجوانوں کی سوچ کی تبدیلی کی عکاس ہے۔ سندھ کی ترقی کے لئے نوجوان قائد بلاول بھٹو کی یہ سب سے بڑی کامیابی ہے کہ وہ سندھ کی تمام اکائیوں کےلئے رول ماڈل ہیں ان کے مسائل کا ادراک رکھتے ہیں۔ سندھ کے وسائل پر قبضہ نہیں ہونےدے رہے جس کی وجہ سے آٹھویں ترمیم کے خاتمے اور صدارتی نظام کی باتیں کی جارہی ہیں۔ کئی مرتبہ فارورڈ بلاک بنانے اور سندھ کی حکومت پر شب خون مارنے کی کوشش ہوچکی ہے۔ گورنر راج سمیت تمام غیرجمہوری راستے اختیار کرنے کی کوشش ہوتی رہی ہیں۔ نیب اور ایف آئی اے اور دیگر طریقے استعمال کئے جاچکے ہیں۔ آصف علی زرداری، محترمہ فریال تالپور، خورشید شاہ، پی پی پی کے وزراء، اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی، شرجیل میمن سمیت متعدد اعلیٰ سطح کے افرادکو توڑنے اور پی پی پی کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں جو ہنوز بھی جاری ہیں۔ لیکن کہیں بھی کوئی بات ثابت نہیں کی جاسکی۔آصف علی زرداری ناحق سزائیں بھی بھگت چکے ہیں۔ لیکن مضبوط اسٹرکچر عوامی پذیرائی اور پی پی پی کے جیالوں کے عزائم کے آگے سب بے بس نظر آتے ہیں جو پی پی پی کی کارکن سے محبت اور نظریات و نعرے پر کربند رہنے کیو جہ سے ہے۔ بلاول بھٹو اس وقت قومی سیاست میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر وہ استعفوں کا فیصلہ کرلیںتو حکومت کا جاناٹھہر جائےگا لیکن وہ اپنی والدہ کے اس قول پر عمل کرتے ہیں کہ جمہوریت بہترین راستہ اور آمریت کے خلاف انتقام ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے مہنگائی اور معیشت کی بہتری کے لئے بہت سی تجاویز بھی پیش کی ہیں جن پر حکومت میں نہ مانوں کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آتی ہے۔ اس وقت ملک کو اپوزیشن کے بغیر چلانا ایک روایت بنادی گئی ہے۔ صدارتی آرڈیننس سے حکومت چلائی جارہی ہے۔ جو ثابت کرتی ہے کہ بیڈگورننس وفاق کا طرہ ٔامتیاز بن کرر ہ گیاہے۔ جس طرح عوام کے لئے بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام پی پی پی نے پیش کیا اور غریبوں کی مدد کی۔ اسے اب نام بدل کر احساس پروگرام کے طورپر چلایا جارہاہے۔ جو پی پی پی کی کامیابی ہے۔ ہمارا تحریک انصاف کی حکومت کو مشورہ ہوگا کہ سب کچھ پچھلوں پر ڈالنے کے بجائے انتقام کی سیاست کو خیر باد کہہ کر ملک کی بہتری کے لئے کام کرے۔ پیپلزپارٹی کی تجاویز اسے بہتری کی راہ دکھاسکتی ہیں۔ صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ مکمل طور پر دیا جائے۔ سازش اور حکومتیں گرانے اور گورنرراج کی ہر کوشش ناکام ہوگی کیونکہ سندھ میں دیہی شہری کی تقسیم لسانی کارڈ اور دیگر حربوں کا وقت گزر چکا ہے۔ اب بہتری کا راستہ مل کر چلنے اور ملک کے لئے درست سمت میں چلنے کا ہے جس میں بلاول بھٹو کا کردار سب سے اہمیت کاحامل ہے۔