پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ 74برس میں صحت عامہ سمیت کسی بھی شعبہ زندگی میں تحقیق و جستجو پرخاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی ۔یہی وجہ ہے کہ کسی بھی قسم کی پریشانی اور ضرورت کے وقت ہماری نظریں یہودونصاریٰ پر لگی رہتی ہیں ،ہم چین ،امریکہ ، روس ،برطانیہ اورفرانس سمیت بڑے ممالک سے آس لگا ئےبیٹھے رہتے ہیں کہ وہ کچھ بنائیں گے تو ہم اپنے مسئلے پر قابو پائیں گے ۔کورونا وائرس کی تیسری لہر زوروں پر ہے ،جس کی روک تھام کےلئے ویکسین کی اشد ضرورت ہے۔اس مقصد کے تحت جہاں دیگر ممالک سے ویکسین کی درآمد کے اقدامات کئے جا رہے ہیں وہاں پاکستان نے چین سے درآمدکردہ ’’خام مال‘‘کے ذریعے ویکسین کی تیار ی شروع کردی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم درآمد شدہ خام مال کے ذریعے صرف بوتلوں میں خوبصورت پیکنگ کے ساتھ ’’ویکسین‘‘ تیار کرکے مارکیٹ میں مہیا کریں گے اور خوشیاں منائیں گے کہ ہم کورونا ویکسین ملک میں تیار کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ ویکسین بنانے کے لئے ’’بائیوٹیکنالوجی پلانٹس ‘‘کی ضرورت ہوتی ہے جو سرے سے ہمارے ملک میں موجودہی نہیں ۔ جب پلانٹ ہی نہیں تو ویکسین کیسے بن گئی؟ پھر بھی ہم ویکسین کی اپنے ملک میں تیاری کا دعویٰ کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں 300جبکہ چین میں 3000کے قریب ’’بائیوٹیکنالوجی پلانٹس ‘‘کام کر رہے ہیں ۔ہمارا پڑوسی بھارت ویکسین تیار کرنے والاملک بن چکا ہے جب کہ ہم اب تک ویکسین نہیں بنا پائے ۔دنیابھر کی حکومتیں عوام کو صحت عامہ کی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے بھاری گرانٹس دیتی ہیںجبکہ ہمارے ملک میں اس جانب کبھی توجہ نہیںدی گئی ۔حکومت نے 1976ء میں ایک قانون کے تحت ’’سینٹرل ریسرچ فنڈ‘‘ قائم کیا تھا جس کے تحت فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی سیل پرایک فیصد فیس ڈیوٹی عائدکی گئی تھی ۔اس مدّمیں کھربوں روپے جمع ہو ئے لیکن 45برس گزرجانے کے باوجود اس بات کا پتہ نہیں چل سکا کہ یہ رقم کون سی طبی ریسرچ پر خرچ کی گئی ۔یہ رقم کہاںہے اورکون لوگ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں؟پاکستان میں دواسازی کے کام کو وسعت دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ فارماانڈسٹری پرلگائے جانے والے بے تحاشا ٹیکسز ہیں،عوام کے ڈر سے حکومت دواساز کمپنیوں کو ادویات کی قیمتیں نہیںبڑھا نے دیتی ،2001سے 2013تک ادویات کی قیمتوں کو منجمدرکھا گیا ۔بھاری اخراجات کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سی غیرملکی دواساز کمپنیاں ملک چھوڑ کر چلی گئیں۔ بھارت نے 1980میں اندرون ملک دواساز انڈسٹری کو آزاد کیا توانہیں اس کا یہ فائدہ ہوا کہ بھارت ہر سال 40بلین ڈالر کی ادویات دیگر ممالک کوایکسپورٹ کرنے لگاجبکہ ہماری ادویات کی ایکسپورٹ 100ملین ڈالر سے بھی کم رہ گئی ہیں،ہماری مجموعی ملکی ایکسپورٹ24ارب ڈالرکے قریب ہے ۔فارما کمپنیوں کو کنٹرول کرنے کے لئے’’ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) ‘‘کا قیام عمل میں لایا گیا ،جس کی مجموعی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔ اس محکمے کے سخت قوانین دواسازی کے فروغ کی راہ میں رکاوٹ ہیں ، افسوسناک امر یہ ہے کہ آج تک اس ادارے کا کوئی مستقل سربراہ تعینات نہیں ہو سکا ۔ سرخ فیتہ، بے جا پابندیوں اور کمیشن مافیا کی وجہ سے یہ ادارہ بھی مطلوبہ کارکردگی دکھانے سے قاصر ہے ۔ بھارت میں کم ازکم 50لیبارٹریاں FDAاور عالمی ادارہ صحت سے منظور شدہ ہیں ۔اسی بناء پر بھارت نے یورپ کی تمام ادویات مارکیٹس کو کنٹرول کر رکھا ہے۔ ادویات کی امپورٹ ایکسپورٹ میں بھی کمیشن مافیا نے مضبوط پنجے گاڑ رکھے ہیں ۔اس کام میں بیوروکریسی ،سیاستدان اور شعبۂ طب سے وابستہ بااثر مافیا برابر کے شریک ہیں ،اس کی تازہ مثال ’’کورونا ویکسین ‘‘کی دیگر ممالک سے خریداری میں سامنے آئی ۔ روس سے آنے والی ویکسین کی قیمت 10ڈالر فی ویکسین تھی ،پاکستانی کرنسی میں اس ویکسین کی قیمت 3200روپے بنتی ہے جبکہ کمیشن مافیا کی وجہ سے یہ ویکسین 12,270روپے میں لوگوں کو لگائی گئی ۔اس قدر مہنگی ویکسین کے غریب عوام ہر گز متحمل نہیں ہوسکتے۔پرائیویٹ کمپنیوں کی طرف سے ویکسین نہ بنانے کی ایک اہم وجہ اس بارے میں ان کے شدید تحفظات ہیں کہ اگر ایک دم کورونا ختم ہوگیا تو ان کی فارما کمپنیاں دیوالیہ ہو جائیں گی۔ ان حالات میںحکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ویکسین بنانے والی فارما کمپنیوں کے تحفظات دور کرے ۔انہیں اس امر کا یقین دلایا جائے کہ اگر کورونا ختم ہو گیا تو دواساز کمپنیوں کا خسارہ حکومت پورا کرے گی۔اس طرح فارما کمپنیوں کو کورونا ویکسین بنانے کے لئے بھاری سرمایہ کاری پر تیار کیا جاسکتاہے جس سے لوگوں کو مناسب قیمت پر ویکسین کی دستیابی ہو سکے گی ۔ ہمارا ملک قیمتی اور نایاب جڑی بوٹیوں سے بھرا پڑا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت طب کے میدان میں تحقیق و جستجو کے عمل کو وسعت دینے کے لئے واضح اور ٹھوس حکمت عملی اپنائے ۔ ہمیںقوم کو کورونا وائرس سمیت دیگر امراض سے بچانے کے لئے ملک میں طبی ریسرچ کے لئے اقدامات کرنا ہوںگے تاکہ مستقبل قریب میں صحت عامہ سے متعلق درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کیا جا سکے ۔