• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی میڈیا میں آئے روز کرپشن، بدعنوانی اور بے ضابطگیوں کے حوالے سے بڑے بڑے انکشافات ہوتے ہیں جن میں قومی خزانے کو اربوں روپے کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ ان اسکینڈلز میں کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جو اچانک سامنے آتے ہیں لیکن کچھ ایسے ہوتے ہیں جو سامنے ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آتے یا پھر دانستہ طور پر ان سے نظریں چرائی جاتی ہیں۔ راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ بھی ایسے ہی منصوبوں میں شامل ہے جس کے متعلق میں نے افسر شاہی کے منہ سے متعدد بار سنا کہ اس میں بار بار تبدیلیاں کی جارہی ہیں اور لگتا ہے کہ کوئی بڑا گڑ بڑ گوٹالا ہوگا۔ کمشنر لاہور، لاہور رنگ روڈ اتھارٹی کے سربراہ ہیں ،چند ماہ قبل میری نظر سے ایک سرکاری خط گزرا جس میں کمشنر لاہور کو ہی صوبے میں بننے والی تمام رنگ روڈ اتھارٹیوں کا چیئرمین بنانے کی تجویز دی گئی تھی۔ اس سرکاری خط میں یہ تجویز بھیتھی کہ لاہور رنگ روڈ اتھارٹی کو ہی صوبے میں بننے والی تمام رنگ روڈز کی پلاننگ سمیت دیگر اختیارات حاصل ہونے چاہئیں۔ ان تجاویز کا کیا بنا معلوم نہیں البتہ اسی دوران راولپنڈی کا یہ اسکینڈل سامنے آگیا۔ حکومت کی طرف سے بنائی گئی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے کمال ہی کر دیا ہے۔ کمشنر راولپنڈی محمد محمود کو جبری ریٹائر کرنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو کارکردگی اور نظم و ضبط رولز 1973 ءاور 2020 ءکے تحت کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کیپٹن (ر) محمد محمود سمیت دیگر افسران پر بھی سنگین قسم کے الزامات لگائے گئے ہیں لیکن بات ساری ثبوتوں پر جا کر ختم ہوگی۔ بیوروکریسی یہ تو ہرگز نہ چاہتی ہے اور نہ کہتی ہے کہ کرپشن کرنے والوں کو چھوڑا جائے لیکن ساتھ ساتھ یہ تحفظات بھی رکھتی ہے کہ کہیں یہ (WITCH HUNT)تو نہیں اور دوسری بات کہ جن کو راولپنڈی رنگ روڈ پراجیکٹ میں تبدیلی کا ثمر ملنا تھا، ان کو بھی منظر عام پر لاکر احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہئے۔ ویسے حیران کن بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دے دیا ہے جس کی شاید بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں ماسوائے سرکاری افسروں کی کرپشن اور بے ضابطگیوں کے علاوہ سیاستدان یا اصل فائدہ اٹھانے والے افراد کا نام نہیں۔ پنجاب حکومت اور خاص طور پر معاون خصوصی برائے وزیر اعلیٰ فردوس عاشق اعوان صاحبہ کی طرف سے متعدد بار پریس کانفرنسوں میں یہ تو ضرور کہا گیا کہ راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل میں کچھ حکومتی سیاسی شخصیات بھی ملوث ہیں لیکن ان کے نام نہیں بتائے گئے۔ کیس نیب کو بھیجا جار ہا ہے جس کے بعد سابق کمشنر راولپنڈی محمد محمود سمیت دیگر ذمہ دار گرفتار ہوسکتے ہیں۔ فیکٹ فائیڈنگ رپورٹ کافی تگڑی ہے اور الزامات بھی کافی سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔ حکومت نیب کو کیس بھیجنے میں حق بجانب ہے لیکن چند سوالات ہیں جن کے جوابات ضروری ہیں۔سب کو پتہ ہے کہ بیوروکریٹ کوئی غلط کام اگر کرتا ہے تو اکیلے نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ سیاستدان کے ساتھ مل کر کرتا ہے۔ حکومت کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگانا کسی کمشنر کے لئے آسان کام نہیں، اس لئے یہ پتہ چلنا چاہئے کہ کمشنر راولپنڈی کو پولیٹیکل کور دینے والا کون ہے۔ کمشنر کسی بڑے کی آشیرباد کے بغیر یہ سب کچھ کیسے کرسکتا ہے؟ میں بھی کچھ نہ کچھ بیورو کریسی کی ورکنگ کو بطور طالب علم سمجھتا ہوں لیکن سمجھ نہیں آ رہا کہ جب اس پراجیکٹ میں تبدیلی کی گئی تو اس کی منظوری کس نے دی؟کمشنر کسی منصوبے میں اتنی بڑے رد و بدل جس میں سرکار کے اربوں روپے خرچ ہونے ہوں، چیف سیکرٹری اور وزیر اعلیٰ کی منظوری کے بغیر کیسے کرسکتا ہے؟ خیر آگے چل کر کیس کی انکوائری جب نیب کرے گا تو بہت سی باتیں سامنے آ جائیں گی۔ حکومت کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہونا چاہئے کہ سابق کمشنر راولپنڈی کیپٹن (ر) محمد محمود کافی منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ سابق دور حکومت میں بھی ایک ہائی پروفائل کیس میں محمد محمود وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے بلکہ یہاں تک کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ کو تڑی لگا دی تھی اور باقاعدہ طور پر بلیک میل کیا تھا۔ موجودہ حکومت جو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے، وہ سب کچھ انکوائری میں ایکسپوز ہو جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ پنجاب حکومت کا گریڈ 20 کا ایک افسر چیف سیکرٹری اور وزیر اعلیٰ کو بتائے بغیر اتنا بڑا کام کسی انجینئر کو گھر بلا کر تو نہیں کرسکتا؟ اگر اربوں روپے کے پراجیکٹ میں گھپلوں کا پچھلے ایک عرصہ سے پنجاب حکومت کو پتہ ہی نہیں چل سکا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے اور دوسرا اتنے آرام سے یہ سب کچھ کارپٹ کے نیچے کیسے ڈال دیا گیا؟ محمد محمود بڑے ماہر پلیئر ہیں۔ وہ احد چیمہ نہیں، اس لئے یہ گیم کل کو حکومت کے گلے پڑ سکتی ہے۔ ٹریک ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ سابق دور میں جس ہائی پروفائل کیس میں سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے محمد محمود کے خلاف جو انکوائری لگائی اس کا شاید آج تک کچھ نہیں بنا۔ پنجاب حکومت نے ازخود اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود انکوائری کیوں نہیں کروائی، اس رول کو بھی چیک کرنا ہوگا؟ وزیر اعظم عمران خان مافیاز کے خلاف سربرپیکار ہیں تو پھر بلاامتیاز احتساب ہونا چاہئے۔ پنجاب کی مجاز اتھارٹیوں نے بروقت ایکشن کیوں نہ لیا اور کیسے بے خبر رہیں، اہم ترین سوالات ہیں جن کے جوابات فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں تو کسی نے نہیں دیئے البتہ نیب اور ایف آئی اے کی انکوائریوں میں شاید ضرور دیے جائیں گے۔ ویسے دیکھا جائے تو راولپنڈی رنگ روڈ کرپشن اسکینڈل کی اعلیٰ تحقیقاتی اداروں کے ذریعے انکوائری لانگ ٹرم میں بیوروکریسی کے لئے اچھی ہے۔ اس میں افسران کو بھی سنا جائے گا اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

تازہ ترین