• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

14سال گزر گئے، یہ 13مئی 2007ء کی ایک شام تھی میرے موبائل فون پر ایک ٹیکسٹ میسج تھا کہ میاں نواز شریف کل صبح 14مئی کو اپنے پارک لین لندن والے فلیٹس پر صحافیوں سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں ۔پیر کا روز تھا، لندن میں صبح کی بے شمار ٹریفک سے نکل کر میاں صاحب کی رہائش گاہ پر پہنچا تو کچھ صحافی دوست پہلے سے موجود تھے۔ میاں نواز شریف کےساتھ میاں شہباز شریف اور ان دنوں مسلم لیگ کا ’’دماغ‘‘ سمجھے جانے والے سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید غوث علی شاہ بھی موجود تھے۔ میاں صاحبان کے پرتکلف ناشتے سے فارغ ہو کر ہم چند صحافی دوسرے کمرے میں آکر بیٹھ گئے اور دو روز قبل کراچی میں ہونے والے سانحہ پر گفتگو کرنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد نواز شریف بھی اسی کمرے میں آگئے اس وقت میرے ساتھ ممتاز صحافی ضیا الدین، رئوف کلاسرا اور غلام حسین اعوان بھی موجود تھے۔ نواز شریف نے انتہائی تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا، بے قصور اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکتا تھا، وہ ضیاء الدین کے ساتھ گویا ہوئے کہ آپ کو پتا ہے اس سانحے کا اصل ذمہ دار کون ہے ؟ پھر نواز شریف خود ہی بتانے لگے کہ آپ لوگوں کو تو علم ہے نا ہمارے جو دوست’’جنرل صاحب ‘‘ ہیں انہوں نے کل مجھے فون پر آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی تمام روداد بتا دی ہے۔

میاں صاحب نے کفِ افسوس ملتے ہوئے جونہی یہ بات ختم کی ہم چاروں صحافیوں کا تجسس مزید بڑھا‘ ہم نے سوالات کئے تو وہ فرمانے لگے ہمارے دوست’’جنرل صاحب ‘‘ نے بتایا کہ وہ 12مئی سے ایک روز پہلے عشرت العباد کےساتھ گورنر ہائوس سندھ میں موجود تھے کہ گورنر نے جنرل پرویز مشرف کو فون ملایا اور کہا سر! ’’اگر ایسا کیا گیا تو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا‘‘ جواب میں جنرل مشرف نے سختی سے کہا ’’ نہیں یہ ہر صورت ہونا چاہئے تم اسی وقت میری بات الطاف حسین سے کروائو‘‘ چنانچہ عشرت العباد نے فوراً اس حکم کی تعمیل کی، پرویز مشرف نے الطاف حسین سے بھی تقریباً یہی بات کی کہ COMPLETE THIS WORK AT ANY COST۔لہٰذا الطاف حسین نے بھی بخوشی اس ’’کام‘‘ کی حامی بھرلی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اگلے روز وہی ہوا جو مشرف اور الطاف کی منصوبہ بندی تھی ۔میاں نواز شریف گفتگو کے دوران بار بار افسوس کا اظہار اور اہم سوالات کر رہے تھے، نواز شریف نے مزید کہا، میں ان لوگوں سے اس قدر نفرت کرتا ہوں کہ پچھلی دفعہ جب میں وزیر اعظم تھا اور حکیم سعید کا قتل ہوا تو میں نے ’’ایم کیو ایم‘‘ کو تین دن کا وقت دیا تھا قاتلوں کو قانون کے حوالے کرنے کیلئے لیکن جب انہوں نے ایسا نہ کیا تو میں نے انہیں حکومت سے نکال دیا۔ میاں صاحب کی ان باتوں اور انکشافات کے بعد پریس کانفرنس کا آغاز ہو گیا۔

سانحہ 12مئی کیوں ہوا؟ اس کا پس منظر بیان کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ دن بھی ملکی تاریخ کے بعض سیاہ ترین دنوں میں سے ایک ہے۔ اس وقت کے صدر پرویز مشرف کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری کو معطل کرنے پر ملک بھر کے وکلاء نے احتجاج شروع کر دیا تھا‘ جب یہ احتجاج ایک ملک گیر تحریک بن گئی تو وکلاء کے ساتھ حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی اپنا سارا وزن اس تحریک میں ڈال دیا، افتخار چودھری نے لاہور میں خطاب کیا تو حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی ۔چنانچہ لاہور کے بعد جب انہوں نے 12مئی 2007ء کو کراچی میں وکلاء سے خطاب کا اعلان کیا تو پرویز مشرف کے پاس ایک آسان راستہ تھا کہ ہنگامی حالت کا اعلان کرکے جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کر دیں، لیکن مشرف نے خون آشامی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنی حلیف جماعتوں کو طاقت کا مظاہرہ کرنے کی ترغیب دی لہٰذا کراچی میں یہ ’’کام‘‘ ’’ایم کیو ایم‘‘ کے سوا بہتر طریقےسے اور کون کر سکتا تھا ؟چنانچہ ’’متحدہ‘‘ نے جان بوجھ کر 12مئی کو ہی اپنے جلسے کا اعلان کردیا ان کےساتھ مسلم لیگ ق نے بھی اسی دن اور اسی وقت کراچی میں جلوس نکالنے کا اعلان کر دیا۔11مئی کو مسلم لیگ کا ایک کارکن قتل کر دیا گیا، انتظامیہ نے راتوں رات شہر کی تمام اہم شاہراہوں پر کنٹینر لگانا شروع کر دیئے اور شہر کو مفلوج کر دیا۔ یہاں سے عشرت العباد کا کام شروع ہوتا ہے کیونکہ اس تمام متوقع فساد کی نگرانی گورنر کر رہا تھا، شرپسندوں کو روکنے کیلئے پولیس کو اسلحہ دینے کی بجائے دہشت گردوں کو فری ہینڈ دینے کے احکامات دیے گئے۔’’متحدہ کے خاص قسم کے غنڈے 12 مئی کو ان سیاسی جماعتوں کے قافلوں پر حملہ آور ہوتے رہے جو چیف جسٹس کے استقبال کیلئے اکٹھا ہو رہے تھے، اس سارے افسوسناک واقعہ میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے، ان غنڈوں نے سرعام لوگوں پر گولیاں برسائیں، ٹیلی ویژن چینلز کے مالکان اور صحافیوں کو دھمکیاں اور ان پر تشدد بھی کیا گیا، چیف جسٹس کراچی ایئر پورٹ پر محصور ہو کر رہ گئے اور ملک کاصدر اسی شام اسلام آباد میںمکے لہرا کر اپنی ’’فتح‘‘ کا جشن مناتا رہا جبکہ کراچی خون میں نہا چکا تھا۔اس خونی واقعہ کے اگلے ہی روز ملک کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے الطاف حسین کو لندن فون کرکے کراچی میں 50لاشیں گرانے کی ’’مذمت‘‘ کو سراہا!

اس سانحہ کی عدالتی تحقیقات ہوئیں تو عدالت نے وزیر اعلیٰ سندھ ارباب رحیم، الطاف حسین اور وسیم اختر کو عدالت میں پیش ہونے کیلئے کہا اور حکومت سے 35 سوالوں کے جواب طلب کئے لیکن نہ تو یہ لوگ عدالت میں پیش ہوئے نہ سوالوں کے جواب دیئے بلکہ عدالتی حکم کو ہوا میں اڑا دیا گیا۔ بلدیہ فیکٹری کا سانحہ ہو، 12مئی کا سانحہ ہو، سانحہ ماڈل ٹائون یا تحریک انصاف کی حالیہ حکومت میں ہونیوالا سانحہ ساہیوال اور حال ہی میں کالعدم تحریک لبیک کے لاہور میں ہونے والے دھرنے میں قتل وغارت گری یا اسی نوع کے دیگر واقعات ہوں حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ تمام واقعات مختلف حکومتوں کے ادوار میں ہوئے لیکن ملزم سامنے گھوم رہے ہیں اور کبھی کسی کو قانون کی گرفت میں نہیں لایا گیا۔ اس ضمن میں آتی جاتی حکومتوں اور ریاست کی مجرمانہ خاموشی بہت سے شکوک و سوالات کو جنم دیتی ہے۔ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ 2007ء میں میاں نواز شریف لندن میں جلاوطنی کے دوران ہمیں سانحہ 12مئی کے افسوسناک واقعہ کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کے نام بتا رہے تھے لیکن ہم نے دیکھا کہ 2013ء میں جب وہ وزیر اعظم بنے تو منصوبہ ساز پرویز مشرف کو پاکستان سے باہر بھیج دیا اور اس سانحہ کو مینج کرنے والے عشرت العباد کو مسلسل اپنا گورنر بنائے رکھا اور اب تبدیلی کا نعرہ لیکر آنے والے عمران خان بھی کرنے کے اصل کام کی بجائے ’’این آر او ‘‘ نہیں دوں گا کی بے وجہ تکرار میں اپنا ’’قیمتی‘‘ وقت ضائع کر رہے ہیں!

تازہ ترین