• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی امن کا قیام ایک دیرینہ خواب ہے جو ہنوز شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ ہماری موجودہ دنیا میں ایک طرف طاقتور اقوام ہیں جو اپنے ٹارگٹس طاقت کے ذریعے حاصل کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں جبکہ دوسری طرف کمزور اقوام یا ان کے متشدد گروہ ہیں جو اپنی جدوجہد سیاسی، جمہوری، سفارتی، اخلاقی یا انسانی بنیادوں پر کرنے کے لئے تیار نہیں جس کا نتیجہ سوائے مزید تشدد اور جوابی تشدد کے اور کچھ نہیں نکلتا، یوں امریکہ جیسی عالمی طاقت اور یو این کے ہوتے ہوئے معاملات مکالمے یا ڈائیلاگ سے نہیں، بارود کے استعمال سے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ رمضان کے آخری دنوں میں تشدد کے دو بدترین واقعات ہوئے ۔ ایک کابل کے مغربی علاقے دشت بارچی میں جہاں ہزارہ کمیونٹی آباد ہے۔ یہاں غریب ہزارہ برادری کا ایک ’’سید الشہدا‘‘ نامی اسکول قائم ہے جو تین شفٹوں میں چلتا ہے، درمیانی شفٹ میں بچیاں پڑھتی ہیںاور عین اس وقت جب یہ طالبات، جن کی عمریں گیارہ سے پندرہ سال تک تھیں، اسکول سے نکل رہی تھیں تو گیٹ پر یکے بعد دیگرے تین خوفناک دھماکے ہوئے جن کے باعث لگ بھگ پچاس بچیوں کے چیتھڑے اُڑ گئے۔ بتایا جا رہا تھا کہ ان بچیوں کی لاشیں ایک ڈھیر کی صورت میں ایک دوسرے کے اوپر پڑی ہوئی تھیں۔ بعد ازاں اموات کی تعداد پچاسی کا ہندسہ عبور کر گئی، اپاہج اور زخمی ہونے والی بچیاں اس کے علاوہ تھیں۔ درویش کا سوال یہ ہے کہ اس بدترین سفاکی کے خلاف غیر تو غیر خود عالمِ اسلام میں کتنا احتجاج ہوا، کتنے مظاہرے یا جلوس نکلے ؟ ہمارے میڈیا نے اس کو کتنی کوریج دی، شاید کئی لوگوں کو یہ کالم پڑھتے ہوئے معلوم ہو رہا ہو کہ ان دنوں یہاں ایسا کوئی سانحہ ہوا بھی ہے، کیوں؟ اس لئے کہ اس کے مرتکبین یہود و ہنود نہیں ہیں بلکہ داعش، القاعدہ یا وہ ہیں جو افغانستان میں حاکمیت کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس سے پہلے اس علاقے کے ایک ٹیوشن سنٹر میں 24ہلاکتیں ہوئیں۔ ایک اسپتال کے گائنی وارڈ پر ایسا ہی سفاکانہ حملہ ہوا اور بیسیوں خواتین ہلاک ہوئیں، ذرا یہ بھی معلوم کرلیا جائے۔ کیا مظلوم ہزارہ کمیونٹی کے دکھوں کا کسی کو احساس و ادراک ہے؟

آج امریکہ افغانستان کی اس ہلاکت خیز دلدل سے نکل جانا چاہتا ہے۔ امریکی قوم اپنے بچوں کو جہالستان میں مروانا نہیں چاہتی تو ہم عرض کرتے ہیں مہاراج ذرا ٹھہر جائیں، بیس سالہ جدوجہد پر یوں پانی نہ پھیریں، طالبان کی یلغار دندناتی پھر رہی ہے، وہ کمزور انسانوں بالخصوص ویمن رائٹس کو کچل ڈالے گی۔ جواب ملتا ہے کہ دس کھرب امریکی ڈالروں اور 2300جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔ اب افغان یا مسلمان اپنا بوجھ آپ اٹھائیں۔ کالم تو آج اس ایشو پر بنتا تھا کہ آنے والے ماہ و سال کی تصویر پیش کی جائے مگر کیا کریں القدس میں مسجد اقصیٰ کے نام پر ہونے والی خونریزی اپنی طرف بلا رہی ہے۔ معصوم بچوں کی آہیں اور سسکیاںسنائی دے رہی ہیں۔ خون تو خون ہے، چاہے جس کا بھی گرے، اصل چیز خون گرانے یا بہانے والی سوچ کا خاتمہ ہے۔ کہتے ہیں جی مکالمے یا مذاکرات سے مسئلے حل نہیں ہوتے اور نہ ہو سکتے ہیں۔ مذاکرات کی میز پر آنے کی دہائی تو کمزور لوگ دیتے ہیں آپ صاحبان تو بہادر و نڈر لوگ ہیں، آپ کو مذاکراتی کمزوری دکھانے کی کیا ضرورت ہے، مصری صدر انور سادات نے جہاد کو چھوڑ کر مذاکرات کے ذریعے سینائی حاصل کیا تھا تو پھر کیوں اُسے گولیوں سے بھون کر رکھ دیا گیاتھا؟

اب اس انور سادات کو شہید ہوئے بھی چالیس سال بیت چکے ہیں، ذرا بتائیے ان کے بعد آپ نے طاقت کے زورپر کتنے انچ زمین واگزار کروائی ہے؟ مت بھولیں آج اگر ویسٹ بینک میں فلسطینی اتھارٹی قائم ہے تو یہ خود کش حملوں کی بدولت نہیں، یہ امریکی سرزمین پر یاسر عرفات، اضحاق رابن اور شمعون پیریز کی مذاکراتی جدوجہد اور امن کی خواہش کا صلہ ہے۔ اگر پی ایل او اپنا سابقہ دہشت گردانہ طرز عمل جاری رکھنے پر مصر رہتی تو القاعدہ اور داعش کی طرح کچل کر رکھ دی جاتی، سادات کو تو آپ نے اس کی امن پسندی کی وجہ سے مار ڈالا، آپ کے جو عظیم جنگجو مجاہد تھے احمد یٰسین، قذافی اور صدام وہ کس انجام سے گزرے اور کیونکر گزرے؟ مسئلہ افراد کا نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ کس نے اپنی قوم کو کیا دیا؟ سادات نے مصریوں کو سینکڑوں مربع میل کا تیل کی دولت سے مالا مال خطہ واگزار کروا کر دیا لیکن پھر بھی معطون ٹھہرا جبکہ قذافی و صدام نے اپنی اقوام کو کئی دہائیوں پر محیط تباہی و بربادی بخشی، ہزاروں بےگناہ انسانوں کی بےوقعت و لاحاصل اموات کا باعث بنے لیکن آج وہ ہمارے ہیروز ہیں۔ آئینی و قانونی طور پر فلسطینی قیادت کی اگر کوئی اہل یا حقدا ر ہے تو وہ فلسطینی اتھارٹی اور اس کی منتخب قیادت ہے،جس کے صدر ابو معاذن جناب محمود عباس ہیں بلاشبہ الفتح ایک زمانے تک طاقت کی سرخیل رہی اور پھر اس نے سیاسی و سفارتی جدوجد کی راہ اپنائی اور مذاکرات کے ذریعے ہی اوسلو معاہدہ ممکن ہوا۔آج اگر صدر محمود عباس انتخابات ملتوی کرنے پر مجبور ہیں تو اس کی وجہ فلسطین میں امن و امان کے خراب حالات ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین