راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل میں ایک طرف طاقتور شخصیات اور مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی چاندی ہوئی تو دوسری طرف ڈرائنگ کی تبدیلی کے ذریعے نقشے پر موجود آبادی کا بڑا حصہ متاثر ہوا۔ اربوں کھربوں کی اس داستان میں لٹنے والوں کا کہیں نام نہیں۔
رنگ روڈ منصوبہ پر کاغذی کاروائی شروع ہوئی سال 2016 میں،2017 میں منصوبے کی ڈرائنگ فائنل ہوئی، پھر اچانک 2020 میں اسکی ڈرائنگ تبدیل کر دی گئی اور یہیں سے مسئلے کا آغاز ہوتا ہے۔
منصوبہ شروع ہونا تھا جی ٹی روڈ پر روات کے مقام چھلنی سے مگر اسکو جی ٹی روڈ پر ہی ریڈیو پاکستان کے سامنے واقع آباد ی ڈھوک اعوان آباد سے شروع کردیا گیا۔
منصوبے کے لیے راولپنڈی اور اٹک زمینوں کو سرکاری ریٹ پر لینا شروع کیا گیا، راولپنڈی کی 6 ہزار کنال اراضی کو خریدا گیا صرف 1.7 ارب روپے میں مگر پھر ڈیزائن تبدیلی کے بعد اٹک کی صرف 5 ہزار 4 سو کنال اراضی کو 3.4 ارب روپوں میں خریدا گیا، یعنی راولپنڈی کے مقابلے میں کم زمین اور دُگنی قیمت، جی ہاں تین ارب 40 کروڑ روپے۔ مگر بات یہاں نہیں رکتی۔ جن لوگوں کی زمینوں کو بڑی لاگت سے خریدا گیا انہیں کم قیمت ادائیگیاں ہوئیں، متاثرین نے شور مچایا مگر کسی نے نہ سنی۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ ہمیں جی ٹی روڈ پر زمین کے صرف 3 لاکھ روپے فی کنال دیئے گئے۔
اس اسکینڈل سے فائدہ اٹھانے والوں میں وزیراعظم کے سابق معاون زلفی بخاری، ان کے بھائی یاور بخاری و الد واجد بخاری اور شہباز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری سید توقیر شاہ کے ناموں کی بازگشت بھی سنائی دی گئی۔
وفاقی وزیر غلام سرورکا نام لیا گیا تو انہوں نے دھواں دھار پریس کانفرنس میں فوری تردید جاری کی تاہم زلفی بخاری نے تحقیقات مکمل ہونے تک استعفی دے دیا۔
معاملے کی انکوائری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اٹک لوپ کو موٹر وے پر شامل کرنے کے لیے ڈیزائن کی تبدیلی سے بڑی بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے اربوں روپے کا فائدہ اٹھایا۔
نئی ڈرائنگ سے فائدہ اٹھانے والی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں نوا سٹی، نیو ائیرپورٹ ہاؤسنگ، اتحاد ہاؤسنگ، کییپٹل اسمارٹ سٹی، بلیو ورلڈ، چنار ہاؤسنگ، پی آئی اے وغیر ہ کا نام لیا گیا۔
راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے پر موجودہ اسکینڈل کے تناظر میں عملدرآمد فی الحال کھٹائی کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس کی ڈرائنگ درست کرکے مقامی افراد کی شکایات کا ازالہ بھی کیا جائے گا یا نہیں۔
راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کی ڈرائنگ تبدیل کرکے بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو فائدہ پہنچایا گیا مگر سوال یہ ہے کہ راولپنڈی، اسلام آباد اور اٹک کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے اس معاملے پر سوال تک نہ اٹھایا؟