• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

یہ لاہور کی اس زمانے میں واحد مارکیٹ تھی جہاں چاول، آٹا، دال، چینی، گھی سے لے کر غیرملکی فروٹ، بہترین ڈبل روٹی، بن، مکھن، مرغی(ولایتی و دیسی )، انڈے (دیسی و ولایتی) ،مرغابی، مچھلی، چھوٹا ‘بڑا گوشت اور تمام خوبصورت پرندے تک مل جاتے تھے۔ دو خوبصورت ریسٹورنٹس ملک بار اور کیپری، کبانہ، ادویات، دوبک اسٹال غرض بہت کچھ آپ کو ایک ہی چھت تلے مل جاتا تھا۔ پھر کار پارکنگ کی سہولت، کیا زبردست مارکیٹ تھی۔ گورے کے زمانے میں عام لوگ تو اس مارکیٹ میں نہیں آ سکتے تھے کیونکہ یہاں آنے کے لئے قوت خرید کا ہونا بہت ضروری تھا۔ گورنمنٹ کالج، پنجاب یونیورسٹی، میو اسکول آف آرٹس (این سی اے) ، ڈینٹل کالج اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے اسٹوڈنٹس کا یہاں میلہ لگا رہتا تھا۔ بن، مکھن، توس ،کباب بہترین سینڈوچ ، کولڈ ڈرنک ہوتا تھا۔ کیا کریم رول، پیسٹری اور پیٹیز ہوتے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے کیمسٹری کے پروفیسر رانا رشید کا تو روزانہ کا لنچ لائل پور اسٹور پر بن مکھن، کباب اور کریم رول کا ہوتا تھا۔ ہم بھی اکثر دوپہر کا یہ سستا لنچ کرنے آ جاتے تھے۔ مجال ہے یہ کھانا کھا کر کبھی طبیعت پر کوئی بُرااثر پڑا ہو۔ یہ لاہور کی واحد مارکیٹ تھی جہاں پر اس دور کی تمام اہم سیاسی وسماجی شخصیات، بیورو کریٹس، فوجی، دانشور اور ان کی بیگمات خریداری کرنے آتی تھیں بلکہ یہ لاہور کی ایلیٹ کلاس کی مارکیٹ تھی۔ لاہور میں اس زمانے میں اس سے اچھی اور معیاری کوئی مارکیٹ نہ تھی۔ اس ٹولنٹن مارکیٹ میں پنجاب اسٹور میں آغا شورش کاشمیری اور مولانا کوثر نیازی کی فزیکل لڑائی بھی ہو گئی تھی ، دونوں گتھم گتھا ہو گئے تھے اور ڈالڈا گھی کے ڈبے ایک دوسرے کو مارےتھے۔ یہ اسٹور پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر رفیق احمد مرحوم کے والد اور بھائیوں آصف اور اعظم کا تھا۔ ڈاکٹر رفیق احمد کے والد دھوتی اور چھوٹا سا کرتا پہنے ننگے پائوں اس مارکیٹ میں اکثر پھرتے رہتے تھے، سو سال عمر پائی تھی۔ جس ا سٹور کے ہاں سب سے زیادہ ورائٹی تھی‘ وہ الفتح اسٹور تھا جس کے مالک شیخ محمد اقبال مرحوم تھے۔ بڑے محنتی اور خدا ترس انسان تھے انتہائی ایکٹو اور نوجوانوں سے زیادہ پھرتیلے تھے۔ ٹولنٹن مارکیٹ 1920ء سے 1990ء تک مال روڈ پر رہی ۔ پھر فیصلہ ہوا کہ اس مارکیٹ کو شادمان منتقل کر دیا جائے۔ شادمان آنے کے بعد مارکیٹ میں پہلے جیسی بات نہ رہی اور کئی لوگ اپنا کاروبار چھوڑ گئے۔ اب یہ انتہائی بدبودار گندی مارکیٹ ہے لوگ اس سے دور ہی رہتے ہیں۔

اِدھر ٹولنٹن مارکیٹ شادمان منتقل ہوئی اُدھر قبضہ مافیا اور کرپٹ افسر اس تاریخی عمارت کو گرانے کے درپے ہو گئے تاکہ اس کا ملبہ فروخت کر کے اور یہاں کوئی نئی بے ڈھنگی سی عمارت بنا کر دیہاڑی لگائی جائے۔ قریب تھا کہ اس تاریخی عمارت کو گرا دیا جاتا مگر عوام، سول سوسائٹی، مختلف حلقوں اور پرانے لاہوریوںکے احتجاج اور دبائو کے نتیجے میں یہ تاریخی عمارت بچ گئی۔ کچھ عرصہ حکومت کے کسی محکمے کے پاس رہنے کے بعد اب یہ تاریخی عمارت میو اسکول آف آرٹس (این سی اے) کے پاس ہے۔ وہ اس تاریخی عمارت کا مصرف بہت اچھے انداز میں کر رہے ہیں۔ این سی اے کے برابر وزیر خاں کی بارہ دری ہے۔ یہ وہی وزیر خاں ہیں جنہوں نے مسجد وزیر خاں تعمیر کرائی تھی۔ ان کا پورا نام حکیم علیم الدین انصاری المعروف وزیر خاں تھا اور وہ چنیوٹ کے رہنے والے تھے۔ مسجد وزیر خاں لاہور بلکہ ملک کی سب سے خوبصورت مسجد ہے۔ اس کا طرز تعمیر ہندی اورایرانی طرز کا ہے۔

ٹولنٹن مارکیٹ کے قریب ہی کبھی ایڈلجی وائن ہائوس کی دکان تھی اور ہم نے خود جنرل ضیاء الحق کے اقتدار سے پہلے اس دکان میں مختلف شراب کی بوتلیں رکھی دیکھی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس وقت لاہور میں صرف دو شراب کی دکانیں تھیں ایک ایڈلجی وائن ہائوس دوسری راجہ وائن ہائوس۔ راجہ وائن ہائوس ٹیمپل روڈ پر تھی۔ لاہور میں جب بھی ہنگامے ہوتے تو سب سے پہلے مظاہرین ان دونوں دکانوں پر پتھرائو کر کے انہیں توڑ دیتے ‘ شراب کی بوتلیں چرا کر لے جاتے اور دکانوں کو آگ لگا دیتے۔ قیام پاکستان سے قبل لاہور میں کئی شراب کی دکانیں تھیں ،بیئر کھلے عام فروخت ہوتی تھی۔ ایڈلجی وائن ہائوس کے پیچھے بہت بڑا دھوبی گھاٹ تھا کیونکہ کسی زمانے میں انارکلی چھائونی تھی اور فوجیوں کی وردیوں کی دھلائی وغیرہ یہاں ہوتی تھی۔ ٹولنٹن مارکیٹ کے برابر ہی میں کمرشل بلڈنگ تعمیر کی گئی تھی جس میں ادویات، جیولری، ساڑھیوں اور بچوںکے اسکول کے یونیفارم کی بھی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ برکت علی ساڑھی والے بڑے مشہور تھے۔ لاہور میں ایک زمانے میں ساڑھی پہننے کا بھی بڑا رواج تھا،بیشتر گرلز سکولوں اور کالجوں کی پرنسپلز اور اساتذہ ساڑھی پہنتی تھیں۔ نیو انارکلی میں بائبل سوسائٹی بڑی قدیم دکان ہے جسے کم از کم 150برس سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ لاہور برصغیر کا واحد شہر ہے جس میں کبھی شہر اور دیہات کا حسین امتزاج تھا۔ لاہور کے تیرہ دروازوں سے صرف دس میل دور کئی دیہات تھے جہاں مٹی کے کچے مکان، بھینسیں، کھیت کھلیان، کچی سڑکیں اور کئی دیہات بغیر بجلی کے تھے جہاں رات کو دِیے اور لالٹینیں جلائی جاتی تھیں اور لکڑیوں اور گوبر کی پاتھیوں پر کھانا پکایا جاتا تھا۔ ہم نے خود لاہور کے گرد و نواح میں بے شمار دیہات ایسے دیکھے ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین