کورونا و با نے ہمیں کچھ اور باتوں کے ساتھ یہ بھی سکھایا ہے کہ اپنی کامیابی کا قبل از وقت اعلان کرنا اور اس پر خوشیاں منانا بڑے نقصان کی وجہ بن سکتا ہے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ 2021کے موسم گرما میں بھی ہم کورونا کی زیادہ شدت والی دوسری لہر سے دوچار ہوں گے۔ بدقسمتی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شعبوں میں تعلیم کا شعبہ سر فہرست ہے۔ نہ صرف کورونا و بانے لاکھوں طلباء کی پڑھائی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، نجی شعبے میں کام کرنے والے تعلیمی اداروں اور ان میں ملازمت کرنے والے اساتذہ اور دوسرے افراد کی نوکریوں کو بھی شدید خدشات لاحق ہو گئے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق تعلیمی نقصان کی قدردس کھرب ڈالر سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔
پچھلے سال مئی جون میں ہونے والے او، اے لیول کے امتحانات کو منسوخ کر دیا گیا اور حکومت پاکستان نے دوسرے ملکوں کی طرح Predicted grades کے ایک نظام کو استعمال کر کے طلبا کو اگلے درجوں میں ترقی دی تا کہ وہ اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔ یہ نظام انگلینڈ کے امتحانی سلسلے کے نگران ادارے Ofqual نے بنایا تھا اور اس کے مطابق یہ سمجھا گیا کہ اصل امتحانات کی عدم موجودگی میں طلبا کی کارکردگی جانچنے کا سب سے بہتر طریقہ ان طلبا کو پڑھانے والے اساتذہ کی رائے ہے۔
اساتذہ سے پوچھا گیا کہ ان کے طلبا امتحانات منعقد ہونے کی صورت میں کیا گریڈ حاصل کرتے اور اپنی جماعت میں کس نمبر پر آتے۔ امتحانی بورڈز نے ایک شماریاتی نظام کے ذریعے ان گر یڈز اور جماعت میں دی گئی پوزیشنر کو پرکھا اور اسکولوں کے پرانے نتائج کی بنیاد پر اساتذہ کے دیے گئے ان گریڈز میں ردو بدل کردیا تا کہ ایک اسکول کے 2020کے نتائج اسی اسکول کے پچھلے برسوں کے نتائج سے ہم آہنگ ہو جائیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 2020کے طلبا کے گریڈز صرف اس بات پر منحصر نہیں تھے کہ ان کے اساتذہ ان کے بارے میںکیا سوچتے ہیں بلکہ اسی اسکول میں پچھلے برسوں میں پڑھنے والے بچوں کی کارکردگی پر بھی منحصر تھے۔ اس شماریاتی نظام کی وجہ سے جہاں کچھ طلبا کا نتیجہ اسکول کے دیئے گئے نتیجے سے بہتر ہوگیا وہاںایک بہت بڑی اکثریت جیسا کہ برطانیہ کے اسکولوں میں تقریباً 40 فیصد طلبا کے نتائج کئی درجے نیچے چلے گئے۔ تمام ملکوں بشمول برطانوی اور پاکستانی طلبا نے اس پر بھرپور احتجاج کیا اور بہت جلد امتحانی بورڈز کو یہ متنازع شماریاتی نظام ردکرنا پڑا۔ طلبا کو اساتذہ کے دیئے ہوئے نتیجوں کی بنیاد پر اگلی جماعتوں میں ترقی دے دی گئی۔ اس وجہ سے اے گریڈ حاصل کرنے والے طلبا کی تعداد پچھلے برسوں کے مقابلے میں تقریباًدوگنا ہوگئی اور ناکام رہنے والے طلبا کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ اچھے گریڈز کی اس بہتات کی وجہ سے نہ صرف یونیورسٹیوں میں محددد نشستوں پر داخلوں کے لئے مقابلہ بہت بڑھ گیا جب کہ مختلف لوگوں اور اداروں کا ان نتائج پر اعتمادبھی بری طرح مجروح ہوا۔
اس سال امتحانی بورڈز اور ان کے نگران ادارے نے ایک مختلف نظام تشکیل دیا۔ ان ملکوں میں جہاں کورونا کی وجہ سے امتحانات کا انعقاد ممکن نہیں تھا وہاں پر اساتذہ اورتعلیمی اداروں کو طلبا کی پچھلے سال کی کارکردگی بشمول اسائنمنٹ، کلاس ٹیسٹ، کورس ورک، ششماہی اور سالانہ امتحانات کی بنیاد پر Assessed Grades دینے کا کہا۔ ان گر یڈز کو امتحانی بورڈز اپنے معیار کو قابو رکھنے کے نظام کی روشنی میں پرکھیں گے اور جہاں جہاں وہ اسکولوں کے دیئے گئے نتائج سے مطمئن نہیں ہوں گے اسکولوں کو یہ تاریخ تبدیل کرنے کا کہا جائے گا۔
اس نئے نظام میں اساتذہ اور اسکولوں کو پچھلے سال کے مقابلے میں کافی زیادہ کام کرنا پڑے گا۔ لیکن اس کے باوجود یہ خدشہ ہے کہ اچھے گریڈز کی بہتات ہو جائے گی کیونکہ یہ اکثر دیکھا ہے کہ اساتذہ گریڈز دیتے ہوئے شک کا فائدہ اپنے طلبا کو دیتے ہیں اور تھوڑے رحمدل ہو جاتے ہیں۔ پچھلے سال جن اساتذہ نے گریڈز دیتے ہوئے سختی کی اورطلبااوران کے والدین کی ناراضی مول لی اس سال شاید وہ بھی گریڈز دیتے ہوئے زیادہ نرمی دکھائیں۔
پچھلے سال کے خراب تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی حکومت نے امتحانات منسوخ کرنے کے تمام مطالبات مسترد کر دیئے اور کورونا و با کی بگڑتی ہوئی شکل کے باوجود امتحانات کے انعقاد کا اعلان کر دیا۔ طلبا اور ان کے کچھ حامیوں، جن میں کچھ سیاسی جماعتیں بھی شامل ہو گئیں،نے مطالبہ کیا کہ امتحانات منسوخ کیے جائیں اور اسکولوں میں طلبا کی داخلی کارکردگی پر نتائج دیئے جائیں۔ ایک استاد کے طور پر یہ مطالبہ مجھے الجھن میں ڈالتا ہے کیونکہ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ پچھلے سال پڑھائی کے سلسلے میں آنے والی رکاوٹوں کی وجہ سے طلبا اپنی پڑھائی مکمل نہ کر سکے تو یقیناً داخلی امتحانات میں ان کی کارکردگی بھی اچھی نہیں ہوگی اور اگر انہیں اسی داخلی کارکردگی کی بنیاد پر نتائج دیئے گئے تو وہ اچھے نتائج حاصل نہیں کر سکیں گے۔ لیکن لگتا ہے کہ طلبا بھی یہ بات جانتے ہیں کہ اس طرح سے ملنے والے نتائج میں اساتذہ اور اسکول اکثرسخاوت سے کام لیں گے۔
طلبا امتحانات کی منسوخی کا مطالبہ اس خدشے کی وجہ سے بھی کر رہے ہیں کہ وہ ان ملکوں کے طلبا سے مقابلہ نہیں کر سکیںگے جہاں نتائج طلبا کی داخلی کارکردگی پر دیئے جائیں گے۔ ایسے طلبا یہ بات فراموش کررہے ہیں کہ اے لیول کی بہت محدود تعداد کے طلبا ایف ایس سی کے بہت بڑی تعداد کے طلبا سے پاکستانی یونیورسٹیوں میں داخلوں کے لئے مقابلہ کرتے ہیں اور یہ جائز نہیں ہوگا کہ اے لیول کے طلبا کو داخلی کارکردگی پر نتائج دیئے جائیں اور ایف ایس سی کےبچے اصل امتحانات دیں۔ یہ دلیل اس امر کی بھی عکاسی کرتی ہے کہ طلبا بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اصل امتحانات میں بہتر نتائج حاصل کرنا زیادہ مشکل ہے۔
تاہم جیسے کہ خدشہ تھا حکومت کو جز واً ہی سہی طلبا کے مطالبے کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہی پڑا۔ 18اپریل کو شفقت محمود نے امتحانات منعقد کروانے کے اپنے دعوے کو دوہرایا لیکن28 اپریل کو مہمل اعتراضات کی بنیاد پر او لیول اور اے ایس کے امتحانات منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔ اب یہ طلبااپنے امتحانات اکتوبر2021ء میں دیں گے۔ اولیول کا پہلا امتحان10مئی کو ہونا تھا لیکن حکومت کو طلبا اور سیاسی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے امتحان منسوخ کرنے پڑے حالانکہ ایس او پیز میں رہنے والی ممکنہ کمیوں کو دور کرنے کے لئے یہ وقت کافی تھا۔
اولیول امتحانات ملتوی یا منسوخ کرنے کا فیصلہ کسی طرح بھی سود مند نہیں ہے کیونکہ اکثر طلبا امتحانات کئی مہینوں کیلئے ملتوی ہو جانے پر پڑھائی چھوڑ دیں گے اور اپنا آدھا تعلیمی سال ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ FSC کے کالجز میں داخلہ بھی نہیں لے سکیں گے، والدین اساتذہ اور تعلیمی ادارے بھی خسارے میں رہیں گے۔ یہاں ایک طرف شفقت محمود اور دوسرے صوبائی وزراءاصل امتحانات کے بغیرطلبا کو اگلی جماعتوں میں ترقی دینے سے صاف انکار کر چکے ہیں۔ دوسری طرف او لیول کے امتحانات اکتوبر تک ملتوی کرنا کسی بھی طرح ایک قابل قبول فیصلہ نہیں ہے۔ اس ڈیڈلاک کو ختم کرنے کے لیے جولائی کے مہینے میں مختصر امتحانات (Mini Exams) کا انعقاد ایک درمیانی راستہ کھول سکتا ہے۔ کیمبرج کو اس مختصر نوٹس پر امتحانات منعقد کرنے میں زیادہ مشکل نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ان کے پاس پہلے سے تیار شدہ امتحانی پرچوں کا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ امتحانی پرچے مختلف نوعیت کے ہیں جو ان اسکولوں کی مدد کے لیے تیار کئے گئے ہیں جو داخلی کارکردگی کی بنیاد پر اپنے طلبا کے نتائج بھیجنا چاہیں۔
یہ امتحانات برٹش کونسل کی نگرانی میں ایک مختص ڈیٹ شیٹ کے مطابق منعقد ہونے چاہئیں اور اس کے امتحانی پرچے کیمبرج کے ایگزامنرز کو چیک کرنے چاہئیں۔ ایس او پیزکو فالو کرنا اس لئے بھی آسان ہو گا کیونکہ تمام امتحانی ہال، اسکولوں کی عمارتیں اوحکومت کے بڑے بڑے تعلیمی ادارے ان امتحانات کے انعقاد کیلئے دستیاب ہوں گے۔
جولائی کے مہینے میں مختصر امتحانات کا انعقاد وہ واحد راستہ ہے جو ہزاروں بچوں کے مستقبل کو بچا سکتا ہے اور انہیں اپنی پڑھائی جاری رکھنے میں مدد دے سکتا ہے۔
(صاحب مضمون ماہر تعلیم ہیں)