• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ، امن و امان کی خراب صورت حال، اغوا برائے تاوان، لمحہ فکریہ

سکھر(بیورورپورٹ، چوہدری محمد ارشاد ) سندھ میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال ، چوری، ڈکیتی، لوٹ مار، اسٹریٹ کرائم اور اغوا برائے تاوان جیسی وارداتوں میں اضافہ لمحہ فکریہ ہے اور حالیہ شکارپور میں ڈاکووں کے ہاتھوں پولیس اہلکاروں کی شہادت نے ایک مرتبہ پھر حکومت سندھ اور آئی جی سندھ کی امن و امان کے حوالے سے کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دئیے ہیں 2018 میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے تبادلے کے بعد سندھ میں پولیس کی گرفت روز بروز کمزور پڑتی دکھائی دے رہی ہے، آئی جی اے ڈی خواجہ کے بعد دو سے تین سال میں دو آئی جی تبدیل ہوئے اور جب سندھ حکومت کی تجویز پر مشتاق احمد مہر کو آئی جی سندھ تعینات کیا گیا تو بہت زیادہ امیدیں کی جارہی تھیں کہ آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر سینئر پولیس آفیسر ہیں اور ان کی سندھ میں بہت سروس بھی رہی ہے اب امن و امان کی صورتحال بہتر ہوجائے گی لیکن وہ امیدیں آج بھی ایک امید سے آگے نہیں بڑھیں بلکہ اب ہر گزرتے دن کے ساتھ جرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ ڈاکو راج جس کا بڑی حد تک سابق آئی جی غلام حیدر جمالی اور اے ڈی خواجہ نے خاتمہ کردیا تھا اب وہ دوبارہ سرگرم عمل ہے اور شاہ بیلو کے جنگلات سے آئے روز ڈاکوؤں کی جدید اسلحے کے ساتھ وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہیں جن میں اکثر پولیس کی رٹ کو چیلنج اور پولیس افسران کو دھمکیاں دی جاتی ہیں لیکن اب تک صوبائی حکومت اور آئی جی سندھ کی جانب سے اس حوالے سے کوئی ٹھوس حکمت عملی سامنے نہیں آئی ہے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ آئی جی سندھ کا اپنا ضلع شکارپور سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں دیگر ریجن یا اضلاع کی نسبت زیادہ ہوتی ہیں۔ صوبے میں امن و امان کی فضاء کو بحال رکھنا اور عوام کی جان و مال کا تحفظ حکومت اور پولیس کی مشترکہ ذمہ داری ہے، پولیس حکومت کے ماتحت ادارہ ہے اور اگر امن و امان کی صورتحال خراب ہو تو صوبے کے سربراہ کی حیثیت سے وزیراعلی سندھ آئی جی سمیت بالا افسران سے باز پرس کرسکتے ہیں لیکن یہ اسی صورت ممکن ہوگا جب سندھ میں پولیس افسران کی تقرریاں سیاسی بنیادوں پر نہیں بلکہ مکمل طور پر میرٹ پر ہوں گی، پیپلز پارٹی کو یہ کریڈٹ بھی دینا پڑے گا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے چند سال قبل سندھ میں جرائم خاص طور پر اغواء برائے تاوان جیسی وارداتوں کا بڑی حد تک خاتمہ کرکے شاہراہوں کو محفوظ بنایا۔ وہ مثالی امن قائم کرنے کا سہرا اگر پیپلزپارٹی کے سر جاتا ہے تو موجودہ جرائم اور اغواء برائے تاوان جیسی سنگین وارداتیں میں اضافے کی ذمہ داری بھی پیپلز پارٹی کی حکومت کے ہی حصے میں آئے گی، آج اپوزیشن کے ارکان واضح طور پر یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ سندھ پولیس سیاسی پولیس بن گئی ہے اور سندھ کے اکثریت اضلاع میں 19 گریڈ کے سینئر پولیس افسران کی جگہ 18 گریڈ کے افسران کو تعینات کیا گیا ہے خاص طور جو اضلاع زیادہ متاثر ہیں وہاں کوئی خاص توجہ دکھائی نہیں دیتی 18 گریڈ کی جگہ اگر 19 گریڈ کے سینئر پولیس افسران کو تعینات کیا جائے تو صورتحال یکسر تبدیل نظر آئے گی اس وقت بھی کچھ مثال ہم دے سکتے ہیں ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ ، ایس ایس پی نواب شاہ اور اینٹی ڈکیٹ آپریشن میں مہارت رکھنے والے آفیسر تنویر حسین تنیو، ایس ایس پی حیدرآباد عبدالسلام شیخ، ایس ایس پی خیرپور ظفر اقبال ملک یہ چار اضلاع میں 19 گریڈ کے افسران موجود ہیں باقی اکثریت اضلاع میں 18 گریڈ کے پولیس افسران کو تعینات کیا گیا ہے حالانکہ 18 گریڈ کے بھی بعض افسران جن میں ایس ایس پی عرفان علی سموں، سرفراز نواز شیخ ،شبیر سیٹھار جیسے افسر بھی جنہوں نے ایک بہترین کمانڈر کے ماتحت کام کیا اور اب انہیں فالو کر رہے ہیں اور کامیاب بھی ہیں۔ سندھ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ڈکیتی، لوٹ مار، اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں خاص طور پر اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں ایک دو سال کے دوران غیر یقینی اضافہ ہوا ہے ۔اغوا برائے تاوان جیسی سنگین وارداتوں میں ایک سال کے واقعات کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سندھ میں سکھر ریجن اغواء برائے تاوان کی انڈسٹری بنتا جارہا ہے۔

تازہ ترین