• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انٹربورڈ کراچی کے 10ہزارسے زیادہ طلبہ وطالبات شدید ذہنی کوفت میں مبتلاوزارت تعلیم سندھ کے فیصلے کے منتظرہیں،یہ وہ طلبا ہیں جو گزشتہ سال کورونا کی وجہ سے غیرمنصفانہ پالیسی کا شکار ہو گئے تھے،یاتویہ طلبا2020کی پروموشن پالیسی کے تحت پروموٹ نہ ہوسکےیا جنہیں فیس جمع کروانے کے باوجود خصوصی امتحان سے محروم کردیاگیا۔حالانکہ دیگر صوبوں میں طلبا کو پروموٹ کیاگیااور متفرق مسائل کے حامل طلباسے خصوصی امتحانات لئے گئے۔اس سلسلےمیں متاثرہ طلباکی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں دائر درخواست پرمعززعدالت نےچیئرمین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ کراچی کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔ روزنامہ جنگ کی خبرکےمطابق درخواست گزار محمد فیصل نے آئینی درخواست میں چیئرمین کراچی بورڈ ،سیکرٹری یونیورسٹی اینڈ بورڈ کراچی اور سیکرٹری تعلیم سندھ کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ پالیسی کے باوجود طلبا کو پروموٹ نہیں کیا گیا، سال2020کے سالانہ امتحانات کیلئے ا علامیہ جاری کیا گیاکہ تمام طلبا و طالبات کو بغیر امتحانات لئے اگلی کلاسوں میں بھیج دیا جائیگا تاکہ عالمی وبا سے بچائو کیلئے احتیاطی تدابیر بھی اختیار کی جائیںاور طلبہ کا تعلیمی سال بھی ضائع نہ ہو، تاہم اسکے باوجود ہزاروں طلبا کو معیار طے کیے بغیر فیل کر دیاگیا۔ درخواست گزار نے مزید کہا کہ دیگر صوبوں میں بھی طلبا کو فیل کیا گیا لیکن پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں بعدازاں طلبا سے تحریری امتحانات لئے گئے اور پھر باضابطہ نتائج جاری ہوئے اسکے برعکس کراچی انٹر بورڈ نے ہزاروں طلبا کو نہ توپروموٹ کیا اور نہ ہی ان سے امتحانات لینے کو تیار ہے۔ ذرائع کے مطابق سندھ کے تعلیمی بورڈز کی کمیٹی کے سربراہ اور چیئرمین انٹر بورڈ کراچی نے نہ صرف سیکرٹری بورڈز و جامعات قاضی شاہد پرویز سے ملاقات کی بلکہ انھیں خط بھی لکھا جس میں کہا گیا کہ 2020کے امیدواروں کی پروموشن کے تحت سالانہ امیدواروں کو بغیر امتحانات ترقی کی اجازت دی گئی تاہم ٹی پی (بارہ پیپرز) ، لازمی مضامین ، مختصر مضامین اور خصوصی مواقع کے فوائد کو اس پالیسی میں شامل نہیں کیا جاسکا جبکہ بورڈ کو ایسے طلباء کیلئے خصوصی امتحان 2020کرانا تھا لیکن کورونا کی وجہ سے یہ امتحانات نہیں ہوسکے۔ یہ معاملات بورڈ کے بی او جی کے 187ویں اجلاس میں رکھے گئے اور بورڈ نے اس اجلاس کی قرارداد نمبر 16کے تحت یہ فیصلہ کیا تھا کہ تمام چیئرمین بورڈز کے بارے میں غور و خوض کے ساتھ تجاویز تیار کر کے اسے آگے بھیجا جائے گا۔ لہٰذا یہ معاملہ آپ کے سامنے رکھا جارہا ہے تاکہ وہ اس معاملے میں ہماری رہنمائی کریں یا بورڈز کو اجازت دی جائے کہ وہ متعلقہ امیدواروں کے قیمتی تعلیمی سال کو بچانے کے لئے پروموشن پالیسی کی منظوری دیں کیونکہ بورڈ ان سے امتحانی فیس پہلے ہی وصول کرچکا ہے۔ محکمہ بورڈز و جامعات کے ذرائع کے مطابق صرف انٹر بورڈ میں پروموشن پالیسی کے منتظر طلباکی تعداد 7ہزار سے زیادہ ہے۔ سیکرٹری بورڈز و جامعات قاضی شاہد پرویز نے اس معاملہ کو محکمہ تعلیم کے پاس بھجوادیا ہے۔ علاوہ ازیں متاثرہ طلبا کا کہنا ہے کہ سابق چیئرمین انٹر بورڈ کراچی کی مبینہ غفلت کی وجہ سے دیگرصوبوں کی طرح ایک تو ہزاروں طلبہ پالیسی کےتحت پروموٹ نہ ہوسکے،جبکہ دوسری طرف طلباخصوصی مواقع سے بھی محروم کردیے گئے، قاعدے کےمطابق ایسے طلبہ جونمبر بہتربنانے کیلئے امتحان دینا چاہتے ہیں انہیں امتحان میں شریک کیا جاتا ہےتاہم فیس وفارم جمع کرنے اور ایڈمیشن کارڈ کے اجرا کے باوجود انٹربورڈ میں ایسے طلباکوموقع فراہم نہیںکیاگیا،چونکہ یہ موقع ایک مرتبہ دیا جاتا ہے، لہٰذاامتحان میں شرکت سےمحرومی کی وجہ سے اُن کا یہ موقع ضائع ہوگیا،اس وجہ سے ایسے پروموشن کے حقدارطلباکے حوالے سے صوبائی محکمہ تعلیم کو سفارش کی گئی ہے۔ایک طرف ملک میں شرح خواندگی ویسے ہی افسوسناک حدتک کم ہےپھر طبقاتی نظام تعلیم کی وجہ سے غریب ومتوسط طبقےکیلئے اس ملک میں آگے بڑھنے کے مواقع بھی محدود ہیں، اشرافیہ کواعلیٰ تعلیم سمیت ہرسہولت حاصل ہے، لیکن غریب بچوںکو تعلیم کیسے دلوائیں کہ وہ تو دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں، ا یسےمیں اس طرح کی ناانصافیاں تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے والے غریب طلباکی حوصلہ شکنی کے مترادف ہیں۔اب جبکہ موجودہ چیئرمین کراچی انٹر بورڈ پروفیسرڈاکٹر سعید الدین نے ہزاروں طلباکے اس مسئلے کومیرٹ پر دیکھتے ہوئے خصوصی دلچسپی سے نہ صرف یہ کہ سیکرٹری بورڈز و جامعات قاضی شاہد پرویز سے رجوع کر لیا ہے اور جس کے بعد سیکرٹری بورڈز و جامعات نے معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے فوری محکمہ تعلیم کے پاس بھجوا دیا ہے، لہٰذ امید کی جانی چاہئے کہ وزیر تعلیم سندھ جناب سعید غنی اس مسئلے کو روایتی سرخ فیتے سے بچانے کیلئے انسانی ہمدردی کی بنا پر فوری حل کیلئے اقدامات کرینگے۔

تازہ ترین