پنجاب میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کے اندر جہانگیر ترین کے پارلیمانی گروپ کی سرگرمیوں اور سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں کے اچانک تین سال بعد پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے کے فیصلے سے سیاسی ماحول ایک بار پھر گرم ہو گیا ہے۔ چودھری نثار علی خاں اور جہانگیر ترین کے عملی سیاست میں سرگرم ہونے سے ان کے سیاسی مخالفین کی نیندیں اڑ گئی ہیں اور سیاسی حلقے دونوں قدآور شخصیات کے سالانہ بجٹ اجلاس سے قبل وفاق اور پنجاب میں یکے بعد دیگرے سرگرم عمل ہونے کو بڑی سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔
اس کے باوجود کہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کی وفاق اور پنجاب میں حکومتی اتحادی جماعتوں کی بیساکھیوں پر قائم ہیں۔ موجودہ حالات میں چودھری نثار علی خاں اور جہانگیر ترین گروپ کے ذریعے کسی بڑی تبدیلی کے امکان بہت کم ہے۔ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی سوموار کو پروگرام کے مطابق اسمبلی رکنیت حلف اُٹھانے پنجاب اسمبلی آئے۔ سپیکر چودھری پرویز الٰہی اور ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد مزاری کی ایوان میں عدم موجودگی کے باعث چودھری نثار علی حلف نہ اٹھا سکے۔ ان کے حلف اٹھانے کے فیصلے سے حکومتی ایوانوں میں ہل چل مچ گئی تھی۔
حکومت چودھری نثار علی جیسی قدآور شخصیت کی پنجاب اسمبلی رکنیت کا حلف اٹھانے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی ہے۔ چودھری نثار علی کے حلف اٹھانے سے کئی حکومتی اور اپوزیشن سرکردہ شخصیات کو تحفظات ہیں، وہ حلف اٹھانے کے بعد پنجاب اسمبلی میں سب سے زیادہ سیاسی طاقت ور شخصیت کے طور پر سامنے آ سکتے ہیں۔ حکومت نے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کو پنجاب سے سنیٹر منتخب کرانے کا فیصلہ کیا ہے، اِس حوالے سے حکومت ایک آرڈیننس لا رہی ہے جس کے ذریعے ایسے تمام سینٹ قومی اور صوبائی ارکان اسمبلی کو 6ماہ کے اندر رکنیت کا حلف اٹھانا لازمی ہو گا ورنہ ان کی نشست خالی قرار پائے گی۔ اس آرڈیننس کی زد میں ۔
سینیٹر اسحاق ڈار اور چودھری نثار علی آئیں گے، جنہوں نے 2018میں سینیٹر منتخب ہونے کے باوجود حلف نہیں اٹھایا۔ اب چودھری نثار علی خاں نے 3سال بعد حلف اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ اسحاق ڈار بیرون ملک ہونے پر سینیٹ کا حلف نہیں اٹھا سکیں گے، ان کی خالی نشست پر وفاقی وزیر شوکت ترین کو سینیٹر منتخب کروا کر وفاقی کابینہ کا حصہ بنانے کا آئینی تقاضا پورا کیا جائے گا لیکن چودھری نثار علی نے پنجاب اسمبلی کے حلف اٹھانے کے فیصلے سے سیاسی حلقوں میں بھونچال آ گیا ہے حکومت اور اپوزیشن میں شامل ان کے سیاسی مخالفین اور اپوزیشن میں شامل قریبی پرانے ساتھیوں کے ان کے سیاسی قد کاٹھ کے سامنے اپنے سیاسی چراغ غل ہوتے نظر آنے لگے اور یوں انہوں نے ان کے پنجاب اسمبلی میں داخلے کا راستہ روکنے کے لئے تاخیری حربے استعمال کئے اور یوں وہ سوموار کو حلف اٹھانے میں کامیاب نہ ہو سکے، اس موقع پر چودھری نثار علی نے حلف نہ لینے پر قانونی چارہ جوئی کا اعلان کیا ہے۔
اپوزیشن جماعتیں بجٹ اجلاسوں میں ایک دوسرے کو ٹف ٹائم دینے اور بجٹ کے اجلاس اپنی سیاسی بالادستی قائم کرنے کے لئے ازسرنو صف بندی میں مصروف ہیں۔ پی ڈی ایم سے پیپلز پارٹی اور اے این پی کی علیحدگی کے بعد اسمبلی سے استعفوں کا مسلم لیگ (ن) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کا مطالبہ دم توڑ چکا ہے اور پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہر طرح کی جارحانہ سیاست کے باوجود اپوزیشن کو حکومت کے خلاف کامیابی نہ ملنے سے اپوزیشن کے اعصاب جواب دے گئے ہیں۔
موجودہ حالات میں وفاقی حکومت نے میاں شہباز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈال کر ان کی لندن روانگی کا معاملہ عدلیہ کے کورٹ میں پھینک دیا ہے اور توقع ہے کہ میاں شہباز شریف بہت جلد علاج کی غرض سے برطانیہ چلے جائیں گے جو پاور پالیٹکس کا ایک حصہ ہے۔ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کا ضمانت کے بعد قومی اسمبلی میں فلسطین کے مسئلے پر مفاہمتی پالیسی بیان، پارلیمانی لیڈرز کے اعزاز میں عشائیہ دینا، سفیروں اور ارکان پارلیمنٹ سے ملاقاتیں اور ان کی میاں نواز شریف بیانیے کی مخالفت، جارحانہ سیاست کرنے والے مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہنمائوں کی خاموشی عقلمندوں کے لئے اشارے ہیں جس سے لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں قومی معاملات کو سڑکوں پر حل کرنے کی بجائے پارلیمنٹ کے اندر اٹھانے کو ترجیح دیں گی۔
سیاسی حلقوں کے مطابق موجودہ حالات میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کو اپوزیشن جماعتوں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ حکومت کو اپنی پارٹی کے اندر گروپ بندی اور بعض وزراء کی سیاسی ناپختگی اور ناتجربہ کاری سے خطرہ ہو سکتا ہے۔ جہانگیر ترین گروپ کی سرگرمیوں نے حکومت اور پارٹی کو جو سیاسی ڈنٹ ڈالا ہے وہ پی ڈی ایم بھی نہیں ڈال سکی تھی اس کے علاوہ شوگر، آٹا، انرجی پاور، پٹرولیم، پولٹری، رئیل اسٹیٹ، کرپشن میں ملوث بااثر سرکاری اور غیر سرکاری شخصیات اور ان کے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں چھپے کارندے حکومت گرانے میں سرگرم ہیں۔
ان مافیاز کا کام کروڑوں لگا کر اربوں کمانا ہے، ان اشرافیہ اور ان کے کارندوں کی جڑیں بڑی مضبوط ہیںلیکن ان کا پالا پہلی بار عمران خان جیسے دیانتدار، نڈر اور بے باک سیاسی لیڈر سے پڑا ہے جو ان کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں۔ عمران خان ملک کے غریب اور متوسط طبقے کو اوپر اٹھانا چاہتا ہے جو قومی دولت نہ خود کھاتا ہے نہ کسی کو لوٹنے کی اجازت دیتا ہے۔
وزیراعظم عمران کا بار بار اور دوٹوک یہ کہنا کہ حکومت جاتی ہے تو جائے بلیک میل نہیں ہوں گا، احتساب جاری رہے گا، میرے لئے اقتدار نہیں نظریہ اہم ہے جس نے حکومت گرانی ہے شوق پورا کر لے، منشور سے نہیں ہٹوں گا، قانون کی حکمرانی قائم کر کے رہوں گا یہ اصول وزیراعظم عمران خان کی اصل طاقت ہیں۔ وزیراعظم کے ان اصولوں پر کاربند ہونے سے اب تک پی ڈی ایم اربوں روپے خرچ کر کے بھی عوام کو حکومت کے خلاف سڑکوں پر لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔