طوطی خان کو قائد اعظم محمد علی جناح کی خدمت کرنے کا اعزاز ان دنوں ملا تھا جب وہ بلوچستان کے صحت افزاء مقام زیارت میں کرنل الٰہی بخش کے زیر علاج زندگی کے آخری دن گزار رہے تھے، طوطی خان سے میری ملاقات 13/اگست 1982ء کو ہوئی تھی۔ میں ان دنوں بلوچستان کے نیم سرکاری دورے پر تھا، میرے اس سفر کی روداد ”ایک ہفتے بلوچستان میں“ کے عنوان سے راولپنڈی کے ایک موقر روزنامے میں 18 ستمبر1982ء کو چھپی تھی۔
زیارت کا پرانا نام غوثیکی تھا، اسے پاکستانی سوئٹزرلینڈ بھی کہا جاتا ہے، سطح سمندر سے اس کی بلندی آٹھ ہزار فٹ ہے، وہاں دنیا کا بہترین سیب پیدا ہوتا ہے، صنوبر کے جنگلات کی وجہ سے زیارت کو عالمی شہرت حاصل ہے، زیارت میں صنوبر کے جنگلات کا دنیا میں دوسرا بڑا ذخیرہ ہے، انگریزوں نے اسے اپنا گرمائی ہیڈ کوارٹر کے لئے منتخب کیا تھا، زیارت بازار سے چھ کلومیٹر شمال مغرب میں ایک ولیٴ کامل ملّا طاہر کا مزار ہے جو خرواری بابا کے نام سے مشہور ہیں۔ خرواری بابا کے وصال پر جب انہیں وہاں دفنایا گیا تو بابا کے عقیدت مندوں نے اس علاقے کو زیارت کہنا شروع کردیا تھا، ایک روایت کے مطابق خرواری بابا کی برکت سے زیارت میں کبھی کسی کی چوری نہیں ہوئی، ان دنوں زیارت تھانے کے ایس ایچ او نے ہمیں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ گزشتہ نو ماہ میں صرف ایک کیس رجسٹر ہوا ہے وہ بھی رشوت کا تھا، زیارت زلزلے کی فالٹ لائن پر واقع ہے کوئٹہ سے زیارت کا فاصلہ 124 کلو میٹر ہے، جن دنوں ہم زیارت گئے تھے ان دنوں زیارت ضلع سبی کی تحصیل ہوا کرتی تھی گرمیوں میں چونکہ سبی کا درجہ حرارت پچاس سینٹی گریڈ تک آجاتا ہے اس لئے گرمیوں میں سبی کی انتظامیہ اپنے دفاتر زیارت لے جایا کرتی تھی، زیارت کا پولیس اسٹیشن پاکستان کا وہ واحد تھانہ ہے جو سردیوں میں بند کردیا جاتا ہے اور مقامی انتظامیہ سبی آجایا کرتی تھی، بعد میں 1986ء میں زیارت کو سبی سے علیحدہ کرکے اسے ضلع کا درجہ دے دیا تھا، سیاسی اعتبار سے زیارت کو صوبائی اسمبلی کی ایک پوری سیٹ اور قومی اسمبلی کی آدھی سیٹ یعنی قومی اسمبلی کے حلقہ NA, 261 میں پیشن کو شامل کرکے زیارت/پیشن کا نام دیا گیا ہے۔ 2002ء، 2008ء اور 2013ء میں تینوں بار بالترتیب متحدہ مجلس عمل کے حاجی گل محمد دھڑ اور مولوی آغا محمد قومی اسمبلی کے لئے کامیاب ہوتے آئے ہیں۔ حالیہ انتخابات مئی 2013ء میں دوسری مرتبہ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ کے مولوی آغا محمد 48712 ووٹ لے کر کامیاب تو ہوئے الیکشن کمیشن نے ان کے کامیابی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے مگر مولوی آغا محمد قومی اسمبلی کے ممبر کے طور حلف نہ اٹھا سکے ان کے مدمقابل پاکستان پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمد عیسیٰ روشن جنہوں نے 48188 ووٹ لئے ہیں انہیں چیلنج کررکھا ہے۔ ون یونٹ کے زمانے میں زیارت مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے حلقہ این ڈبلیو5 میں شامل تھا، زیارت ضلع کی دو تحصیلیں ہیں، ایک زیارت اور دوسری سنجاوی، زیارت میں سارنگزئی، پانیزئی، کاکڑ، ترین اور دوتانی پشتون آباد ہیں جبکہ سنجاوی میں، دمڑ، غلزئی، پیچئی، ونیچئی، سید اور تارن مقیم ہیں۔ زیارت سات یونین کونسلوں پر مشتمل ہے اس کے صوبائی حلقے کا نمبر بھیPB7 ہے، موجودہ زیارت میں امپرومنٹ ٹرسٹ، سرکاری افسروں کی قیام گاہیں اور ریسٹ ہاؤس بھی تعمیر کرلئے گئے مگر عام آدمی آج بھی حیرت کی تصویر بنا ہوا ہے تعلیمی اعتبار سے 2008-09ء کے سروے کے مطابق ضلع کے 34 فیصد افراد پرائمری پاس ہیں زیارت کی دو تہائی شہری آبادی محض لکھنا پڑھنا جانتی ہے دیگر حوالوں سے بھی 1998ء کی رپورٹ کے مطابق زیارت رہائش کے معیار کے مطابق ملک کے اضلاع کی درجہ بندی میں32ویں نمبر تھا مگر 2005ء میں کم ہو کر69 ویں نمبر پر آگیا ہے اور انحطاط کا عمل ابھی جاری ہے، اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ15 جون جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات انتہا پسندوں نے پہلے ریذیڈنسی سے پاکستانی پرچم اتارا اور وہاں اپنی تنظیم کا جھنڈا لہرایا اور پھر اس تاریخی اور یادگار عمارت جسے لوگ عقیدت والفت سے قائد اعظم ریذیڈنسی کہا کرتے تھے اسے راکٹوں اور بموں سے اڑا دیا، دیکھا جائے تو انتہا پسندوں نے پاکستانی ورثے کو نہیں اپنے خود ساختہ جھنڈے کے پرخچے اڑائے ہیں، قائداعظم تو ابد تک دلوں میں زندہ رہنے والی شخصیت ہیں، ان کا نقش کیسے دھندلایا جاسکتا ہے، ان کی یادیں کیسے محو ہوسکتی ہیں، مجھے کئی بار بلوچستان جانے کا اتفاق ہوا ہے بلوچ مجھ سے کئی گنا زیادہ محب وطن اور پاکستانی ہیں۔ مارچ 1973ء میں جب میں پہلی بار کوئٹہ گیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ ریلوے اسٹیشن پر میلے کا سماں تھا اس روز کوئٹہ اور زاہدان کے درمیان ریلوے کا آغاز ہوا تھا میں اسی پہلی ٹرین میں ایران گیا تھا، راسے میں نوشکی، نوکنڈی اور تفتان جہاں کہیں ریلوے ٹریک پر ریت آجاتی تھی اور ریل رکتی تھی تو بلوچستان کے کالجوں، یونیورسٹیوں کے بچے پروگرام کے مطابق کوئٹہ سے زاہدان تک بیلچے ہاتھوں میں لئے پاک ایران دوستی زندہ باد کے نعرے لگاتے آگے بڑھتے اور لمحوں میں ریلوے ٹریک صاف کردیا کرتے تھے وہ لوگ آج بھی موجود ہیں ان کی اگلی نسلیں بھی جوان ہوچکی ہیں بھلا وہ قائداعظم کی میراث کو کیسے نقصان پہنچا سکتے ہیں، اگست 1982ء میں جب میں زیارت گیا تو کوئٹہ سے زیارت تک ہر گھر پر پاکستانی جھنڈا اور زیادہ تر گھروں پر برقی قمقمے لگے ہوئے تھے۔
قائد اعظم کے خدمت گار طوطی خان جن کا انتقال 30/اگست 1992ء کو ہوا اور ان کی تدفین بھی زیارت ہی میں ہوئی تھی انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ اکثر زیارت کے بازاروں میں خریداری یا کسی ہوٹل پر کھانا چائے اس لئے نہیں پیتے کہ لوگ انہیں قائداعظم کی نسبت سے بہت احترام و عقیدت سے نہ صرف ملتے ہیں بلکہ پیسے بھی نہیں لیتے، جہاں محبت اور عقیدت کا یہ معیار ہو وہاں کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی، ملک میں جو کوئی بھی غیر اخلاقی اور شرپسندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے وہ پاکستانی اور بلوچ تو کیا وہ مسلمان بھی نہیں ہوسکتا۔ یقیناً ایسی حرکتیں اسلام دشمن اور پاکستان کے بے چہرہ دشمن ہی کرسکتا ہے۔