اسلام آباد (مہتاب حیدر) مقامی سگریٹ کمپنیوں نے عالمی برانڈز کے مقابلے میں ٹیکس شرح کم کرنے کی تجویز دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علیحدہ دوسری ٹیئر متعارف کی جائے اوران کے ساتھ پانچ سال کے لیے ایکسائز ڈیوٹی میں کمی پر ترجیحاتی سلوک کیا جائے۔ تفصیلات کے مطابق، مردان اور آزاد کشمیرمیں مقامی سطح پر سگریٹ بنانے والوں نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ علیحدہ دوسری ٹیئر متعارف کرے تاکہ ان کے ساتھ پانچ سال کے لیے کم ایکسائز ڈیوٹی ریٹس کی مد میں ترجیحاتی سلوک کیا جائے۔ انہوں نے کم ٹیکس ریٹس کا مطالبہ عالمی برانڈز کے مقابلے میں کیا ہے۔ 13 صفحات پر مشتمل اس تجویز میں سگریٹوں کی مجموعی تعداد بھی کم بتائی گئی ہے جو کہ ان کے مطابق 56 ارب بنتی ہے، اس طرح انہوں نے مارکیٹ کے مجموعی سائز سے 30 سے 40 فیصد تعداد جان بوجھ کر غلط بیان کی ہے۔ تمباکو کے شعبے میں غیرقانونی اور ٹیکس چوری شدہ حجم پر بحث جاری ہے کیوں کہ ایف بی آر کی اصل اعدادوشمار یقینی بنانے سے متعلق کوئی تحقیق نہیں ہے۔ البتہ ایف بی آر کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ غیرقانونی سگریٹوں کا حصہ 40 فیصد کے قریب ہے۔ سگریٹ صنعت کا مجموعی حجم 80 ارب سے زائد سگریٹوں پر مشتمل ہے۔ 2018-19 میں ایف بی آر کے ساتھ اس کا حجم 63 ارب قانونی صنعت تھا، جس کا ٹیکس جمع کیا گیا تھا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ دی گئی تجویز میں مجموی قانونی مارکیٹ حجم اب 50.1 ارب سگریٹوں تک محدود ہوجائے اور تقریباً 31 ارب سگریٹیں غیرقانونی شعبے میں چلی جائیں۔ جمع کی گئی تجویز میں کہا گیا ہے کہ تیسری علیحدہ ٹیئر متعارف کی جانی چاہیئے جو کہ صرف مقامی کمپنیوں کے لیے ہو۔ جب کہ سگریٹ کے پیکٹ پر ٹیکس کی حد 42.12 روپے سے 130 روپے کے درمیان ہو۔ یہاں ترجیحاتی نظام کے طرز کی درخواست کی گئی ہے، جو کہ خالصتاً مقامی کمپنیوں کے لیے ہو، وہ بھی 5 سال سے زائد کم سے کم قانونی قیمت میں اضافے کیے بغیر ہو۔ ایسی مراعات پر عمل کی کیا ضرورت ہے؟ وہ بھی پانچ سال کی مدت کے لیے؟ اس پر عمل درآمد کی ضمانت کیا ہے اور اس میں آمدنی کے وعدے کیا ہیں؟ یہاں متعدد سوالات ہیں جن کے جوابات درکار ہیں۔