• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جاپان اُن خوش قسمت ممالک میں سے ایک ہے، جہاں’’ قومی زبان‘‘کا نفاذ کوئی مسئلہ نہیں۔پوری جاپانی قوم جاپانی زبان بولتی ہے، محض چند ایک علاقوں میں مقامی بولیاں اپنا وجود رکھتی ہیں، لیکن اُن کے بولنے والوں کا بھی جاپانی زبان سے کوئی اختلاف نہیں۔وہ جاپانی زبان سمجھتے اور اُسی میں لکھتے، پڑھتے ہیں۔ 

البتہ، مقامی الفاظ شامل ہوجانے سے اتنا ضرور ہوا ہے کہ وہاں معیاری جاپانی زبان کچھ بدلے لہجے اور تلفّظ کے فرق کے ساتھ سُنائی دیتی ہے۔ اس سے قطع نظر پورے جاپان میں، چاہے وہ شہر ہوں یا دیہات یا پھر دُور اُفتادہ جزیرے، ہر جگہ ایک ہی زبان کا راج ہے اور وہی ہر طرف اپنے رسم الخط میں لکھی نظر آتی ہے، ہاں کہیں کہیں رومن رسم الخط بھی استعمال ہونے لگا ہے۔ 

سڑکوں پر سمتوں کے اشارے، مقامات، ریلوے اسٹیشنز کے نام اور غیرمُلکی مسافروں کی رہنمائی کے لیے ضروری ہدایات رومن رسم الخط میں لکھی نظر آتی ہیں۔صاف ظاہر ہے کہ یہ قدم بھی صرف غیرمُلکیوں کی سہولت کے لیے اٹھایا گیا ہے، جب کہ اب بھی متعدّد مقامات اور ریلوے اسٹیشنز ایسے ہیں، جہاں انگریزی یا رومن رسم الخط کا بالکل گزر نہیں، جس کے سبب وہاں غیر مُلکیوں کو دشواریاں بھی پیش آتی ہیں۔

ہاں، ہندسوں کے معاملے میں اب کوئی مسئلہ نہیں رہا کہ قدیم جاپانی ہندسے شاذ ہی استعمال ہوتے ہیں۔ ہر جگہ، چاہے وہ علمی ضرورت ہو یا عام زندگی کے معاملات، اس قوم نے متفّقہ طور پر انگریزی ہندسے اختیار کرلیے ہیں۔اگر قومی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے، تو یہ ایک عیب ہوسکتا ہے، وگرنہ قومی زبان کا نفاذ اور ہر سطح پر اس کا استعمال یقنیناً قابلِ رشک امر ہے۔

جاپان میں ایک منفی طرزِ عمل اور نمایاں ہے اور وہ ہے، مغربی بلکہ امریکی تہذیب کا روز افزوں اثر اور غلبہ۔ مثلاً جاپانیوں نے مکمل طور پر مغربی پہناوا اپنا لیا ہے، صرف خاص خاص مواقع، مخصوص مقامات یا گھروں کے اندر روایتی ملبوسات استعمال ہوتے ہیں۔ مگر جہاں تک بول چال کی بات ہے، تو عام گفتگو میں چند انگریزی الفاظ یا اصطلاحات تو نوجوانوں کی زبانوں سے ادا ہوجاتی ہیں، اور وہ بھی بہت کم، ہاں نت نئی ایجادات، جو انگریزی الفاظ بھی اپنے ساتھ لا رہی ہیں، اُنھیں انگریزی کے استعمال پر ضرور مجبور کرتی ہیں۔ نیز، اشتہارات اور ایسے اخبارات و رسائل جو تفریحی نوعیت کے ہیں، اُن میں جاپانی رسم الخط کے درمیان انگریزی الفاظ کو رومن رسم الخط ہی میں لکھنے کا رواج ہے اور ایسا بالعموم اُن الفاظ کی طرف متوجّہ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر پوری قوم اپنی زبان بولنا پسند کرتی ہے۔ 

نیز، نئے الفاظ اور اصطلاحات کا بھی اپنی زبان میں ترجمہ کر رہی ہے یا اُن کا لہجہ اور تلفّظ تبدیل کرکے انھیں اپنے لب و لہجے میں استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ ایک عمومی زبان کے طور پر بھی ہو رہا ہے اور کچھ علمی و تعلیمی یا ثقافتی ادارے اور محکمے بھی ایسے الفاظ اپنی زبان میں منتقل کر رہے ہیں یا اُنھیں اپنے لب و لہجے اور تلفّظ میں ڈھال کر آسان، سہل اور رواں بنا رہے ہیں۔ ٹیلی فون، جہاز، ریل گاڑی، بس، کار، ہوائی اڈّا، اسٹیشن، سب وے، جیسے الفاظ اس قوم نے قبول نہیں کیے، اُن کے پاس ان کے متبادل الفاظ موجود ہیں۔سوال یہ ہے کہ نئے الفاظ کو جاپانی رُوپ کون دے رہا ہے؟ 

ہمارے تجربے اور مشاہدے کی حد تک یہ کام باضابطہ طور پر حکومت نہیں کر رہی، بلکہ یہ کام عوام کر رہے ہیں۔یہاں ذہن فطری طور پر وزارتِ تعلیم کے تحت کام کرنے والی’’مجلسِ قومی زبان‘‘ (Kokugo Shingikan) کی طرف جاسکتا ہے، لیکن اُس کے وظائف میں ایک معیاری جاپانی زبان کا فروغ تو شامل ہے، مگر اُس کا نفاذ نہیں۔ یہ مجلس دیکھتی ہے کہ زبان کا معیار کیا ہونا چاہیے اور رسم الخط میں کیا کیا اصلاحات ممکن ہیں؟ اس کی ساری کوششیں تدریسی مقاصد اور ذرائع ابلاغ کی رہنمائی کے لیے وقف ہیں۔ جب جنگِ عظیم دوم میں تباہی کے بعد جاپان کو اپنی بقا و ترقّی کے لیے ہر شعبۂ زندگی میں اصلاحات سے کام لینا پڑا، تو زبان اور رسم الخط کے معاملات بھی زیرِ غور آئے، لیکن اس ضمن میں زیادہ تر تدابیر کا دارومدار رسم الخط کی اصلاح پر رہا۔

یہاں یہ امر پیشِ نگاہ رہے کہ اس قوم نے اپنی سوچ، عمل، روایات اور جذبات کو اپنی سرزمین اور تاریخ سے کس حد تک جوڑے رکھا ہے۔ چینی تہذیب نے تاریخ کے ہر دَور میں اس قوم کو بے حد متاثر کیا، لیکن جاپانیوں نے ان اثرات کو اس حد تک جذب کرلیا کہ اب وہ اُنھیں بھی اپنی قومیت کے عناصرِ ترکیبی میں شمار کرتے ہیں۔ چناںچہ 1868ء کے میجی انقلاب کے بعد، جس کے نتیجے میں سیاست اور معاشرت میں اِس حد تک تبدیلیاں واقع ہوئیں کہ اُن کی دنیا ہی بدل گئی، متعدّد اصلاحات نے ہر شعبۂ زندگی پر اپنے اثرات مرتّب کرنے شروع کیے اور مختلف تحریکات بھی شروع ہوئیں۔ چینی حروف کو، جن کا تناسب 80 فی صد ہے، جاپانی رسم الخط سے خارج کرکے صرف اپنا ’’کانا‘‘ رسم الخط اختیار کرنے کی تحریک چلی، مگر اُسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ 

اِسی طرح تنازعات سے بچنے کے لیے رومن رسم الخط اختیار کرنے کی تحریک شروع ہوئی، لیکن اُسے بھی قبولیت حاصل نہ ہوئی۔ یہ قوم اپنے عناصرِ قومیت کو اپنا جزوِ ایماں سمجھتی ہے اور اس معاملے میں بے حد جذباتی ہے، تو یہ کیسے ممکن تھا کہ کسی غیر زبان کے الفاظ کو یہ قوم آسانی سے درآنے کا موقع دیتی اور اُنھیں اختیار کرلیتی؟ اس عمل میں ظاہر ہے کہ کوئی مجلس یا محکمہ شاید اِتنا فعال اور مستعد نہ ہو، جتنا قومی تقاضوں کا پاس و لحاظ رکھنے میں خود عوام متحرک ہوں۔ چناں چہ، حقیقتاً خود جاپانی قوم ہی اپنی زبان کے عام استعمال اور فروغ و نفاذ کی ذمّے داری سنبھالے ہوئے ہے۔

غیرزبانوں کی یلغار اور اُن کی آمد روکنے کا طریقۂ کار سمجھنے کے لیے ہمیں یہ بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ جاپان ایک صنعتی مُلک ہے اور اُس کی مصنوعات آئے دن نت نئی صُورتوں میں سامنے آتی رہتی ہیں۔ خاص طور پر روز مرّہ استعمال کی مصنوعات تو قطار در قطار آتی ہیں۔ صنعت کار یا تقسیم کار ان مصنوعات کی بڑے پیمانے پر تشہیر کرتا ہے۔ اشتہارات دیے جاتے ہیں اور تعارفی تقاریب منعقد ہوتی ہیں۔ اس موقعے پر جو اشتہارات تقسیم ہوتے ہیں، بینرز آویزاں کیے جاتے ہیں یا طریقِ استعمال کے کتابچے شایع ہوتے ہیں، سب جاپانی زبان ہی میں ہوتے ہیں۔ 

یہاں تک کہ ان مصنوعات پر جو کچھ لکھا جاتا ہے، وہ بھی جاپانی ہی میں ہوتا ہے۔ یوں نئے نئے الفاظ صنعت کاروں، تقسیم کنندگان اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے جاپانی زبان میں منتقل ہوکر عوام تک پہنچتے ہیں۔ہم نے جاپان میں طویل قیام کے عرصے میں کبھی کسی فرد کو کسی اور زبان میں لکھتے پڑھتے نہیں دیکھا۔ تمام اُمور، خواہ گلیوں اور بازاروں میں طے ہوں، تجارتی یا دفتری ہوں، سرکاری ہوں یا نجی، علمی ہوں یا غیر علمی، ہر جگہ جاپانی زبان ہی وسیلۂ اظہار نظر آئی۔ تمام تر اجتماعات اور تقاریب کا انعقاد اسی زبان میں ہوتا ہے۔

ہم نے متعدّد سیمینارز اور کانفرنسز میں شرکت کی، مگر کہیں انگریزی زبان کا استعمال نہیں دیکھا۔ صرف وہ مقالات انگریزی میں پیش ہوتے ہیں، جو غیرمُلکی مندوبین کی جانب سے پیش کیے جاتے ہیں، لیکن اُن کا اعلان اور مندوبین کو مقالہ پیش کرنے کی دعوت جاپانی زبان ہی میں ہوتی ہے۔ نیز، منتظمین کی جانب سے ان مقالات کا جاپانی زبان میں خلاصہ پیش کیا جانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ تحقیقی مجلّات میں جو مقالات انگریزی یا کسی اور زبان میں شائع ہوتے ہیں، اُن کا جاپانی زبان میں خلاصہ دیا جاتا ہے۔وہاں ہر شخص، جس نے اسکول کی تعلیم مکمل کی ہے، انگریزی زبان سے واقف ہے اور لکھ، پڑھ سکتا ہے۔ صرف بولنا اُن کے لیے مسئلہ ہے کہ اُنھیں انگریزی بولنے، سُننے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ چناں چہ، اُن کی بولنے کی مشق بھی نہیں ہوتی۔ 

اُن کے تعلیمی نظام میں ثانوی اور اعلیٰ ثانوی اسکولز میں انگریزی زبان چھے سال تک لازمی مضمون کے طور پڑھائی جاتی ہے اور بڑے اہتمام سے پڑھائی جاتی ہے کہ اُنھیں پڑھانے والوں کی مادری زبان انگریزی ہوتی ہے یا پھر وہ امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ جیسے انگریزی بولنے والے ممالک سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ انگریزی کو جدید سائنسی اصولوں اور طریقوں کے تحت سیکھتے ہیں اور لکھنے میں بڑی قدرت رکھتے ہیں۔ جاپانی خوش خطی کو بھی بے حد اہمیت دیتے ہیں۔ اسکولز میں اس پر بہت زور دیا جاتا ہے۔

متعدّد افراد جو انگریزی زبان سے کسی طرح نسبت رکھتے ہیں، اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ ممالک جاتے ہیں یا محض انگریزی زبان سیکھنے کے لیے ان ممالک میں جاکر قیام کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے اُن کی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی ہاسٹل وغیرہ میں رہنے کی بجائے کسی خاندان کے ساتھ رہائش اختیار کریں۔ لیکن ایسے افراد جب واپس اپنے مُلک پہنچتے ہیں، تو اُن کی روزمرّہ یا پیشہ ورانہ زندگی میں انگریزی زبان کے اثرات نہیں جھلکتے۔ اُنھیں دیکھنے، سُننے میں کہیں محسوس نہیں ہوتا کہ یہ انگریزی سے واقف بھی ہوں گے یا کسی انگریزی زبان بولنے والے مُلک میں رہ چُکے ہیں۔ یہ افراد انگریزی سیکھتے تو ہیں، لیکن محض ایک زبان کے طور پر۔ جاپانی، انگریزی کو کسی علم کے سیکھنے یا پڑھنے کا وسیلہ نہیں بناتے۔ 

چناں چہ، اُنھیں انگریزی زبان میں سوچنے کی ضرورت پڑتی ہے، نہ سمجھنے کی۔ یہ ہر علم کو، ہر سطح پر، اپنی زبان میں سیکھتے، پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔ یوں انگریزی زبان کو وسیلہ بناکر کسی علم کو حاصل کرنے کے لیے اُنھیں ذہن پر بوجھ ڈالنا پڑتا ہے اور نہ ہی وقت ضائع ہوتا ہے۔ نتیجتاً وہ جو علم سیکھتے ہیں، اُس پر قادر رہتے ہیں اور اُس سے متعلق اُن کے ذہنوں میں کوئی ابہام، تشنگی اور الجھن نہیں ہوتی۔(یہ قوم اپنی زبان کے احسانات سے پوری طرح فائدہ اٹھا رہی ہے۔ سہولتیں اور آسانیاں حاصل کر رہی ہے اور اس میں کسی غیر زبان پر کامل عبور نہ رکھنے کا کوئی احساسِ کم تری بھی نہیں۔ 

اعتماد اور یقین اس قوم کی ترقّی کے بڑے محرّکات ہیں اور یہ انگریزی کو محض اِس حد تک اختیار کیے ہوئے ہے کہ جس حد تک اپنے قومی احساسات اور روایات مجروح کیے بغیر اس سے فائدہ اُٹھا سکتی ہے۔ چند مثالیں یوں دیکھیے کہ انگریزی زبان میں، بلکہ دیگر ترقّی یافتہ زبانوں جرمن، فرانسیسی، روسی، ہسپانوی اور چینی زبانوں میں بھی کتب چَھپتی ہیں، تو ہفتے دو ہفتے میں جاپان پہنچ جاتی ہیں۔ کتابوں کی بڑی بڑی دُکانوں میں غیرمُلکی مطبوعات کا ایک وسیع و عریض گوشہ، جس کی گنجائش لاہور کے سابقہ’’ فیروز سنز‘‘ کی دکان کے کُل حجم سے زیادہ ہوتی ہے، غیرمُلکی اور مغربی زبانوں کی تازہ ترین مطبوعات سے بَھرا رہتا ہے۔ 

یہاں ہر موضوع، سطح اور ہر نوعیت کی کتب ہوتی ہیں۔ایک اور پہلو بھی قابلِ رشک ہے کہ یہ قوم مغربی زبانوں کی جن مطبوعات کو تعلیمی، علمی، تحقیقی یعنی کسی بھی اعتبار سے ضروری سمجھتی ہے، چند ہفتوں ہی میں جاپانی زبان میں ترجمہ کر ڈالتی ہے۔ ان میں سائنسی، فنی، پیشہ ورانہ، ادبی، بچّوں اور حالاتِ حاضرہ سے متعلق کتب ہوتی ہیں۔گویا چند ہی ہفتوں میں اس قوم کو بہترین عالمی ادب اور فنی و سائنسی کتب اپنی زبان میں پڑھنے کے لیے میّسر آجاتی ہیں۔ صرف یہی نہیں، ٹائمز، نیوز ویک، لائف، اکانومسٹ وغیرہ جیسے عالمی معیاری ہفت روزہ رسائل تیسرے چوتھے دن جاپانی زبان میں فروخت کے لیے موجود ہوتے ہیں۔

جاپان میں قومی زبان کی یہ صُورتِ حال ایک اجنبی و غیرمُلکی کے ذاتی تجربے اور مشاہدے کی حد تک محدود ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے ہم یہاں پاکستان میں کیا سیکھ سکتے ہیں؟ ہمیں گلہ ہے کہ ہماری حکومتیں، نوکرشاہی قانون پر عمل نہیں کرتی اور حیلے بہانوں سے قومی زبان کے نفاذ کو ٹالتی رہتی ہے۔ سرکاری زبان نہ بننے کی وجہ سے یہ تعلیمی زبان نہ بن سکی اور اسی وجہ سے ہماری شرح خواندگی بھی نہیں بڑھ پاتی۔ 

یہ سب حقائق ہیں، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا کسی قانون نے ہمیں مجبور کر رکھا ہے کہ ٭…ہم اپنے دست خط اردو میں نہ کریں؟ ٭…ہم اپنے گھروں پر نام اور پتا اردو میں نہ لکھیں؟٭…دُکانوں اور دفتروں کے نام بھی اردو میں نہ لکھیں؟ ٭… اشتہارات اردو میں نہ دیں؟٭…مصنوعات پر اردو نہ لکھیں؟یہ وہ کام ہیں، جو ہم خود کرتے ہیں اور جن سے ہمارا ذاتی اور قومی تشخص متعیّن ہوتا ہے۔ تاہم، ذرا سی توجّہ سے یہی اقدامات ہمارا مجموعی مزاج بدل سکتے ہیں۔ اگر مجموعی مزاج بدل گیا، تو پھر حکومت اور نوکر شاہی قومی زبان کے نفاذ میں کیا رکاوٹ ڈال سکے گی؟

تازہ ترین