• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں سیاسی حلقے جناب شہبازشریف کی سرگرمیوں کو مسلم لیگ ن کیلئے نئے امکانات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں،اس سلسلےمیں اُن کی مفاہمتی سیاست یا دوسرے معنوں میں ہرایک سے بنا کررکھنے کی سوچ کو بطور خاص موضوع سخن بنایا جا رہا ہے، تاہم اس سے بھی زیادہ مفاہمت پی ڈی ایم کے سربراہ کے اس پالیسی بیان سے عیاں ہوئی ہے، جو اُنہوں نے 29مئی کو پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد پریس بریفنگ میں دیا، مولانا فضل الرحمٰن نے دوحہ معاہدے اور ان افواہوں کا ذکر کیا جن کے تناظر میں یہ بات کہی جارہی ہے کہ پاکستان نے اپنے ایئربیس امریکہ کو استعمال کرنےکی اجازت کے حوالے سے کوئی فیصلہ کیا ہے۔ مولانا محترم نے ان افواہوں کا اس حوالے سے ذکر کم کیا کہ اس سے پاکستان کی خودمختاری متاثر ہوگی بلکہ اُن کا زور اس بات پر تھا کہ ایسی صورت میں افغانستان کی مزاحمتی قوتیں ردعمل میں جو کچھ کر سکتی ہیں پاکستان کو اس کا اندازہ لگانا چاہئے۔ دوسری طرف اُنہوں نے اُس پارلیمنٹ میں اسے زیر بحث لانے کا مطالبہ کیا جسے وہ مانتے بھی نہیں، چاہتے یہ ہیں کہ ’افواہیں‘‘ یا مفروضے عوامی اور پارلیمان ہر دو محاذوں پر ایشو بن سکیں۔ اگر ایسا ملکی خودمختاری کے حوالے سے کیا جاتا تو اس سے بڑی حمیت کی بات اور کیا ہوتی لیکن برسوں سے ہماری یہ عجیب پالیسی رہی ہےکہ امریکہ کے ساتھ بعض ایسے معاہدے بھی کرلئےجاتے ہیں جو ملکی وعوامی مفادمیں نہیں ہوتے۔ پھر یکایک ایسے معاہدوں کیخلاف حلیف مذہبی جماعتوں کی جانب سے امریکہ کیخلاف محاذ گرم کر لیا جاتا ہے، ظاہر یہ کرنا ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام توآپ (امریکہ) کیخلاف ہیں لیکن یہ ہم ہیں کہ اس کے باوجود آپ کا ہاتھ بٹاتے رہتے ہیں۔ بعض حلقوں کےمطابق اگر ائیر بیس دینے کی بات سچ ہوتو اس کانشانہ افغان مزاحمتی قوتوں سے زیادہ خطے کے طاقت ورممالک ہوسکتے ہیں۔چونکہ ایسی صورت میں اگرملکی خودمختاری کا جائزوحق بجانب عَلم اُٹھایا جاتاہےتوسیاسی جماعتوں کی کمزورتنظیمی ساخت کی وجہ سےپاکستانی عوام میں اسکےردعمل کے امکانات اس قدر نہیں ہیں جس قدر اس ایشوکو مذہبی سطح پر اُٹھانےکے ہوسکتے ہیں۔ بنابریں جس طرح دوحہ معاہدے کے حوالےسے افغان طالبان کو تشویش ہے اسی طرح مولانا صاحب کے دوحہ معاہدےکے ذکر میں بھی اسی طرح کی تشویش ہوسکتی ہے، اب چونکہ مولانا صاحب سمیت مذہبی جماعتیں افغان طالبان کی مزاحمت کوجہاد سمجھتی ہیں،یوں اگر پاکستان میں یہ باورکرایاجائےکہ یہاں یہ سب کچھ طالبان کیخلاف منصوبےکا حصہ ہےتو مذہبی عناصر کو حسبِ ضرورت سڑکوں پر لاکر امریکہ کو یہ باورکرایا جاسکتاہے کہ دیکھیں اس قدر شدید مخالفت کے باوجود ہم نےآپ کی خاطریہ کڑوا گھونٹ پی لیاہے،نیز اس سے طالبان کیلئےہمدردی وحمایت بھی حاصل ہوسکتی ہے۔کہنایہاں یہ ہے کہ جس طرح جنرل ایوب خان اورجنرل پرویزمشرف کے دور میں اڈے دینے کے وقت مذہبی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی حلیف تھیں اورخاموشی بہترین قومی مفاد میں تھی تو ایساہی کیاگیا ۔ جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیاءالحق کے دور میں ایسی جماعتیں دوسرے انداز سے اسٹیبلشمنٹ کا دست و بازو بنیں، پاکستان بنانے والے مسلم بنگالیوں کیخلاف باقاعدہ تنظیموں کو میدان میں اُتاراگیااور یہی کچھ نام نہاد افغان جہاد میں کیا گیا۔ اب بھی اس حوالےسے اگرردعمل وقت کا تقاضا ٹھہرے تواس میں کسی کی رضا کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر ایسا ہوا تو جناب شہباز شریف سےبھی زیادہ مولانا صاحب کے تازہ موقف کو مفاہمت کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس وقت مولانا صاحب اسٹیبلشمنٹ مخالف دستےکی صف اول میں ہیں، لیکن بہرصورت جنرل پرویزمشرف کی کارستانیوں کو تحفظ دینےوالی 17ویں آئینی ترمیم کی پارلیمنٹ میں حمایت سے لیکرآزادی مارچ میں اچانک یوٹرن لینے تک بعض بدگمانیاں بھی ہیں۔پھر اگر وہ ایساکرتے ہیں تو یہ بھی پاکستانی سیاست کاہی ایک حصہ ہے اور یہی سب کچھ تو دیگر جماعتیں بھی کرتی رہی ہیں۔ ہم البتہ سمجھتےہیں کہ حضرت مولانا ہم جیسے چھوٹے قلم کاروں کی سوچ سے بدرجہا بلند و بالا علم وفہم رکھنےکےباوصف بہترفیصلہ کرسکتےہیں کہ ملک کے ’’وسیع ترقومی مفاد‘‘ میں کیاہے؟برسرزمین حقائق یہ ہیں کہ موجودہ حکومت کو عوامی قوت سے چلتاکرنے کے عزائم ٹھنڈے پڑےہوئےہیں، ماسوائے اجلاسوں اورتقریروں کے میدان عمل پر خاموشی کے ماسواکچھ نہیں۔اب یہ رائے عام ہےکہ پی ڈی ایم کی فعالیت محض اس خاطرہوگی کہ وہ عوام کے سامنے رہے،اور آئندہ ہونے والے انتخابات میں  اپنی کامیابی کیلئے رائے سازی کر سکے۔ پاکستانی سیاست دنیا سے مختلف ہے اور یہاں کسی وقت کچھ بھی ہوسکتاہے،لیکن بظاہر حکومت کے جانے کے حوالے سے مضبوط شواہدکی کمی ہے۔ شوگر اسیکنڈل کے جہانگیر ترین کا چیلنج ضرور موجود ہے، لیکن یہ بھی کسی کی رضا سے مشروط ہے۔ جہاں تک میاں صاحب اورمریم بی بی کے سلوگن کا تعلق ہےتوعوام بالخصوص پنجاب نے اُسے قبول کرلیاہے اور شہبازشریف صاحب کے آنے کے بعد بھی ن لیگ کا مرکز ومنبع میاں صاحب ہی ہیں ، بظاہر مگر یہی لگتاہےکہ میاں صاحب نے بھی معروضی حالات کا ادراک کرتے ہوئے فی الحال دمادم مست قلندر کی بجائے شہباز شریف کی مفاہمتی پالیسی کو آگے بڑھنے کا موقع دیدیا ہے۔ جیسا کہ ان سطور میں کہا گیا ہے کہ اس مفاہمتی پالیسی سے بھی فوری حکومت جانےکے امکانات کم ہیں البتہ سال ڈیڑھ سال قبل اگرانتخابات کیلئے راہ ہموارکرلی جائے تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔

تازہ ترین