وزیراعظم عمران خان کی پالیسیوں کے مثبت نتائج برآمد ہونا شروع ہو گئے ہیں اور قوم کو اچھی خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔ گزشتہ ماہ مثبت خبروں کی لائن لگی رہی جن میں خاص طور پرریکوڈک کیس میں پی آئی اے اثاثوں کی بحالی،وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا بہترین سفارتی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین پر کامیابی حاصل کرنا،اسٹاک مارکیٹ کا 73سالہ ریکارڈ توڑنا،پاکستان کو عالمی ماحولیاتی فورم کی صدارت ملنا،پاکستان کا ایشیا کی سب سے تیز ترین مارکیٹ بننا،پاکستان کا کووڈ ویکسین تیار کرنا،پاکستان کا 36جے ایف17تھنڈر طیاروں کی فروخت کا معاہدہ کرنا، پاکستان کا 22ارب ڈالرز کا قرض واپس کرنا، کرنٹ اکائونٹ خسارہ ایک ارب ڈالرز سے پلس ہونا،ترسیلاتِ زر 24بلین ڈالرز ریکارڈ ہونا، ہر ضلع میں 10سے 15ارب روپے کا ترقیاتی پیکیج دیا جانا،احساس کفالت، لنگرخانے، بیت المال فنڈز سمیت غرباء کیلئے اہم ترین پروگرامز کامیابی سے جاری ہونا،صحت کارڈز کا اجرا، کسان کارڈ کا اجرا، پاکستان کا ترقی کے لحاظ سے 63ویں نمبر پر آنا،واپڈا کے گرین یورو بانڈ کو دنیا میں پذیرائی ملنا، 500ملین ڈالر کے گرین بانڈ کو چھ گنا زیادہ آفر ملنا اور عالمی سطح کی تینوں ریٹنگ ایجنسیوں جن میں S&Pاور موڈیز شامل ہیں، کی طرف سے واپڈا کے آئوٹ لُک کو مستحکم قرار دیا جانا،GDPگروتھ3.94فیصد ریکارڈ ہونا، مارچ کے ماہ میں ایکسپورٹ 3.2بلین ڈالر ہونا،گڈز ایکسپورٹ 21بلین ڈالر تک پہنچنا،زرمبادلہ کا 27بلین ڈالر کو کراس کرنا، مینو فیکچرنگ 9فیصد سے زیادہبڑھنا،سیمنٹ کی فروخت ریکارڈ ہونا،کاروں کی فروخت اور ٹریکٹرز کی 62فیصد بڑھنا،روشن ڈیجیٹل اکائونٹ میں ایک بلین ڈالر آنا،دس سال بعد پاکستانی شہریوں کیلئے کویتی ویزا بحال ہونا،ٹیکس کولیکشن 4700بلین روپے ہونا،چاروں صوبوں میں اکنامک زونز کا بننا،پاکستان میں پہلی مرتبہ موبائل کی مینوفیکچرنگ ہونا،کامیاب جوان پروگرام کے تحتخواتین کو ایک ارب روپے تک کا قرضہ جاری کرنا، Amazonکا پاکستان میں آنا،NABکا گزشتہ 18 سال کے دوران 290ارب روپے جبکہ 2018سے لیکر اب تک484ارب روپے ریکور کرنا، پاکستان کے نیشنل گرڈ میں ایٹمی بجلی شامل ہونا،ایک لاکھ 70ہزار نوجوانوں کو اسکالر شپ دئیےجانا تاکہ وہ Technicalتعلیم حاصل کر سکیںاورایک ارب درخت لگائے جانا وغیرہ شامل ہیں۔
ان مثبت خبروں کا یہاں تذکرہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عوام کو باور کروایا جا سکے کہ ملک آگے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حکومت پُرعزم ہے کہ ہم چوتھے سال کے اندر مہنگائی کم کرکے خوشحالی کی طرف بڑھیں گے۔ اپوزیشن سے جھگڑا صرف اور صرف احتساب کے معاملات پر ہے۔ وزیراعظم عمران خان احتساب کے معاملے پر اس حد تک سنجیدہ ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ حکومت جاتی ہے تو جائے لیکن احتساب پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ مجھے ان کا موقف اس لئے صحیح لگتا ہے کہ 2018کا الیکشن احتساب کے بیانیہ پر جیتا گیا، اب کیونکر احتساب کے موقف میں تبدیلی کی جا سکتی ہے؟ اپوزیشن کو جمہوری ا سپرٹ کے تحت حکومت کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا چاہئے۔ تین سال سے حکومت کو ہٹانے کی جدوجہد ہو رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں وزیراعظم کو بات نہیں کرنے دی گئی۔ الیکشن شفاف کرانے کیلئے مذاکرات نہیں کئے گئے۔ کیا یہ جمہوریت ہے؟ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے تو میثاقِ جمہوریت پر دستخط کئے تھے جس میں خاص طور پر کہا گیا تھا کہ الیکشن جیتنے والی پارٹی کے حق حکومت کو تسلیم کیا جائے گا۔ اب اس اصول کی خلاف ورزی کیوں؟ اپوزیشن کو جلسے جلوسوں اور احتجاجی تحریک پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ ضد بازی میں سیاست نہیں ہوتی اور پھر ضد تو اصولوں پر کی جاتی ہے۔ احتجاجی تحریکیں جمہوری اصولوں کی سراسر نفی ہیں۔ شہباز شریف کہتے ہیں کہ ہم بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا اعلان کرکے وہ ملک کی کون سی خدمت کر رہے ہیں؟ اپوزیشن کو چاہئے کہ اِس ضمن میں مثبت تجاویز دے تاکہ حکومت بجٹ کو مزید بہتر بنا سکے۔ اس سارے عرصہ میں اپوزیشن تقسیم ہو گئی۔ حکومت سے لڑنے کی بجائے آپس میں گتھم گتھا ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ(ن) میں شہباز شریف اور مریم نواز کا موقف الگ الگ ہو گیا ہے۔ میں ذاتی طور پر پارٹیوں کی تقسیم کے خلاف ہوں۔ سیاسی رہنمائوں کو اپنی اپنی پارٹیوں کے ڈسپلن میں رہنا چاہئے۔ اسی طرح تحریک انصاف میں جہانگیر ترین گروپ کوئی قابلِ فخر کارنامہ سرانجام نہیں دے رہے۔ نذیر چوہان ایم پی اے نے نمایاں ہونے کے چکر میں بیرسٹر شہزاد اکبر پر الزام لگایا جبکہ انہوں نے واضح اعلان کیا ہے کہ ہر اُمتی کی طرح وہ بھی ختم نبوتؐ کے چوکیدار ہیں۔ پارٹی اختلافات کے چکر میں ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ پارٹی کا معاملہ پارٹی کے اندر رہنا چاہئے۔ شہزاد اکبر ایک انتہائی لائق اور معاملہ فہم انسان ہیں اس لئے وضاحت کے بعد یہ معاملہ ختم ہو جانا چاہئے۔ بہرحال بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ میں گزارش کر رہا تھا کہ ملکی معیشت بہتری کی طرف چل پڑی ہے۔ اپوزیشن کو مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنا چاہئے۔ پارلیمنٹ میں افہام و تفہیم کے ساتھ قانون سازی کرنی چاہئے۔ حکومت کو اپوزیشن کے حق کو تسلیم کرنا چاہئے اور حکومت کو عوام کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات اٹھاتے رہنا چاہئیں۔