• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تیز تیز قدم اٹھاتا پارلیمنٹ ہائوس کے فرسٹ فلورپر واقع کمیٹی روم نمبر 1 میں داخل ہونے لگا تو دروازے پر ایستادہ سیکورٹی اہلکار نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے بتایا ’’ سراندران کیمرہ/ بندکمرہ اجلاس ہورہا ہے، میڈیا کو شرکت کی اجازت نہیں‘‘۔ ایک لمحے کیلئے مجھے یقین نہ آیا کہ انسانی حقوق کمیٹی کے بندکمرہ اجلاس کی کوئی ایسی خاص روایت موجود نہیں، اس لئے کہ اس میں حساس قومی امورنہیں بلکہ انسانی حقوق کے موضوعات زیربحث آتے ہیں۔ میں نے تصدیق کیلئے پوچھا یہ سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کا ہی اجلاس ہے ناں ؟ وہ بولا جی۔ آج اجلاس ان کیمرہ ہورہا ہے۔ پارلیمنٹ کی دفاع و خارجہ امور کی کمیٹیاں اکثر کچھ معاملات کو’’حساس‘‘ قرار دے کر اپنے اجلاس ان کیمرہ منعقد کرتی رہتی ہیں مگر میرے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ اس بار انسانی حقوق کمیٹی کا اجلاس بھی ان کیمرہ منعقد کیا جارہا تھا جسکی کوئی ضرورت نہ تھی۔ پوچھا کوئی خاص ایجنڈا ہے؟سیکورٹی اہلکار نے بتایا کہ کمیٹی کے نئے چیئرمین کا انتخاب ہورہا ہے۔ اتنے میں کمیٹی روم سے ایک سرکاری افسربرآمد ہوا ،جس نے بتایا کہ سینیٹر ولید اقبال انسانی حقوق کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہوگئے ہیں۔

پتہ چلا کہ حکومتی سینیٹر ولید اقبال کا نام تحریک انصاف کے گردیپ سنگھ نے تجویز کیا تھا اور مسلم لیگ ن کے سینیٹر مشاہد حسین نے اسکی توثیق کی یوں وہ انسانی حقوق کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہوگئے۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی اپوزیشن سے نکل کرحکومت کے ہاتھ میں چلی گئی ہے۔ اس کمیٹی کو سینیٹ کے حالیہ انتخابات سے پہلے تک پیپلزپارٹی کے مصطفیٰ نواز کھوکھر چلا رہے تھے۔ مصطفیٰ کمیٹی اجلاسوں میں آزادی اظہار کو لاحق خطرات، لاپتہ افراد، پولیس کی زیادتیوں اور انسانی حقوق سے متعلق دیگر اہم قومی واقعات کو کمیٹی ایجنڈے کا حصہ بناتے، متعلقہ حکام کو بلاتے اور کمیٹی کے پلیٹ فارم سے ایسے اقدامات اٹھاتے کہ اکثر معاملات حل ہوجاتےاوراگرحل نہ بھی ہوتے تو حکومت کو سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

پارلیمنٹ کے کمیٹی روم کے باہر کھڑے جب انسانی حقوق کمیٹی کے ارکان کی فہرست پر نظردوڑائی تو دوسری حیرت میرا منہ چڑا رہی تھی اور وہ یہ کہ اس میں پیپلزپارٹی کی طرف سے مصطفیٰ نواز کا نام تک غائب تھا۔ مجھے بات سمجھ میں آگئی اور وہ یہ کہ پارٹی پالیسی پر پی ڈی ایم سے دغا بازی کے بارے میں کی گئی تنقید مصطفیٰ نواز کومہنگی پڑگئی، اسی لئے ان کو انکی پسندیدہ کمیٹی کا رکن تک بننے سے محروم رکھا گیا۔ کمیٹیوں کے ارکان کی نامزدگیوں پرفیصلہ پارٹی رہنما کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو کو بڑے دل کا مظاہرہ کرناچاہئے تھا۔ اگر یہ ان کی طرف سے نہیں ہوا تو کم ازکم انہیں اسکا نوٹس ضرورلینا چاہئے۔ مختلف رابطوں کے بعد یہ بھی پتہ چلا کہ انسانی حقوق کمیٹی کا قرعہ دراصل پیپلزپارٹی کے نام ہی نکلا تھا مگر پی پی پی نے یہ کمیٹی مسلم لیگ ن کو تحفے میں دے دی اور ن لیگ نے یہ کمیٹی آگےحکومت کو دان کر دی۔ یوں اب اس کمیٹی کی نگرانی تحریک انصاف کے سینیٹرولید اقبال کے پاس آگئی ہے۔ اس کمیٹی کی باگ ڈور اگر اپوزیشن کے پاس رہتی تو شاید حکومت پر نگرانی رہتی۔ ولید اقبال، علامہ اقبالؒ کے پوتے اورجاوید اقبال کے بیٹے ہیں۔ ان سے امیدیں فطری ہیں انہیں چاہئے کہ وہ مصطفیٰ نواز کے دور کی قائم انسانی حقوق کمیٹی کی اعلیٰ روایات کو آگے بڑھائیں اورحکومت کی اس حوالے سے کڑی نگرانی کریں۔

سینیٹ کے ساتھ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کی سربراہی بلاول بھٹو زرداری کرتے ہیں۔ ان کی زیر صدارت اجلاس بھی دلچسپی سے بھرپورہوتے ہیں ان کے ایجنڈے میں بھی انسانی حقوق کے اہم امورموجود رہتے ہیں مگر پیپلزپارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے مصروفیات کے باعث اکثر وہ اس کمیٹی کے اجلاس تواترسے نہیں کرپاتے لہٰذا خال خال ہی اہم امورسامنے آپاتے ہیں۔بلاول بھٹو کو چاہئے کہ وہ خود نہ آسکیں تو کم ازکم کمیٹی کے اجلاسوں کے تسلسل کو ضروریقینی بنائیں۔پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے سب سے زیادہ کام مقامی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیمیں یا این جی اوز کرتی رہی ہیں۔ اکثران تنظیموں کو عالمی ادارے مالی معاونت فراہم کرتے تھے جس سے ایک طرف تو قیمتی زرمبادلہ ملک میں آتا اور لاکھوں لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوتے تو دوسری طرف ملک میں عورتوں، بچوں، خواجہ سرائوں اوراقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر کام ہوتا۔ جمہوریت اور آزادی اظہارجیسے امورپرپُرمغزمباحث اوران جیسے موضوعات پر مختلف تربیتی ورکشاپس منعقدہوتی ہیں اور لوگوں کے شعور میں اضافہ ہوتاہے مگر بھلا ہو سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کا انہوں نے اپنے دور میں جعلی اورملک دشمن این جی اوز کے خلاف ایکشن کی آڑ میں ایسے سخت قوانین متعارف کروائے کہ اب انسانی حقوق کی اکثر بین الاقوامی تنظیمیں پاکستان چھوڑ کر جا چکی ہیں اور جو مقامی سطح پرکام کررہی ہیں انہیں بھی اکنامک افیئرز ڈویژن، سیکورٹی اداروں، مرکزی و صوبائی حکومتوں سے کٹھن مراحل طے کرکےاجازت نامے لینا پڑتے ہیں لہٰذا انسانی حقوق کا کام بڑی حد تک بند پڑا ہے۔

حکومت،غیرسرکاری تنظیموں اور پارلیمنٹ میں انسانی حقوق کمیٹیوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم حقوق سے محروم اپنے لوگوں کو انصاف دلانے میں سنجیدہ ہیں نہ اپنا نظام بہتر کرنے میں بلکہ ہم نے بھی انسانی حقوق کو ایک بندکمرے میں قید کر رکھا ہے۔

تازہ ترین