• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے ایک معمولی سرجری کے لئے کراچی کے علاقے کلفٹن میں واقع ایک نجی اسپتال میں داخل ہوا۔ میرا اسپتال میں پہلا دن تھا، جب مجھے وہاں یہ افسوس ناک خبر ملی کہ محترمہ ڈاکٹر اعجاز فاطمہ 92 سال کی عمر میں انتقال کر گئی ہیں۔ میں اس عظیم ہستی کو بچپن سے جانتا تھا، جب ان کا کراچی کے علاقے ناظم آباد میں 25بستروں کا اسپتال اور میٹرنٹی ہوم تھا، یہ اسپتال 1950 کی دہائی میں ڈاکٹر اعجاز فاطمہ اور ان کے شوہر ڈاکٹر تجمل حسین نے قائم کیا تھا۔ وہ اسپتال بھی میرے ذہن میں تھا اور تقریبا سات عشروں کے بعد ضیاء الدین گروپ آف ہاسپٹلز کے ایک انتہائی جدید ترین اسپتال میں لیٹا اپنا علاج کرا رہا تھا۔ یہ ایک شخصیت اور اس کے عظیم کارناموں کی ایک قابل فخر داستان ہے۔

ڈاکٹر اعجاز فاطمہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عاصم حسین کی والدہ تھیں۔ ناظم آباد میں ان کے اسپتال کے ساتھ میرے والد مرحوم و مغفور نذیر الدین صدیقی کا پرنٹنگ پریس تھا۔ ڈاکٹر عاصم حسین کے والد ڈاکٹر تجمل حسین سے میرے والد کی دوستی تھی۔ کبھی میرے والد صاحب ڈاکٹر تجمل حسین کے پاس چلے جاتے تھے اور کبھی وہ میرے والد صاحب کے پاس تشریف لے آتے تھے اور کافی دیر کچہری ہوتی تھی۔ میں نے ان دونوں بزرگوں کی محفل اور صحبت سے بہت کچھ سیکھا۔ ڈاکٹر تجمل حسین اور ان کی اہلیہ بہت شفیق اور وضع دار تھے۔ دونوں میاں بیوی بہت محنتی تھے اور اپنے ادارے اور اپنی خدمت کو لوگوں کے لیے قابل اعتماد بنانے کا جنون رکھتے تھے اور وہی ہوا۔ ایک چھوٹا سا میموریل اسپتال ایک گروپ آف ہاسپٹلز کی بنیاد بنا اور آج اس گروپ کا شمار پاکستان کے بڑے ہیلتھ کیئر نیٹ ورکس میں ہوتا ہے اور یہ ہیلتھ کیئر نیٹ ورک ملک کے 20 بڑے اسپتالوں میں سے ایک ہے۔ یہ ادارہ پاکستان کا ایک اثاثہ ہے۔ نہ صرف تعلیم کے شعبے میں بھی اس گروپ نے کئی بڑے ادارے قائم کرلئے ہیں بلکہ پاکستان کے پہلے پرائیویٹ تعلیمی بورڈ کا قیام بھی اسی ادارے کا اعزاز ہے۔

اس کا کریڈٹ یقیناً ڈاکٹر اعجاز فاطمہ اور ڈاکٹر تجمل حسین کے بعد اب ڈاکٹر عاصم حسین کو جاتا ہے۔ 1950 اور 1960کے عشرے میں پیدا ہونے والے ناظم آباد کے اکثر لوگوں کا میٹرنٹی ہوم ان کا اسپتال تھا۔ ان کا اس ادارے پر اعتماد ان کی نسلوں میں آگے منتقل ہوا۔ میں نے ڈاکٹر اعجاز فاطمہ کو جس محنت سے بچپن میں کام کرتے ہوئے دیکھا، ان کی زندگی کے آخری برسوں میں بھی انہیں اسی محنت سے کام کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ عظیم شخصیت تھیں، جن کی اعلیٰ صفات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے ایک چھوٹے سے اسپتال میں لوگوں کے علاج کے لئےجو سخت پروٹوکول شروع میں اختیار کیا تھا، وہ ان کے بڑے اداروں میں ایک سسٹم کے طور پر رائج ہے۔ مجھے میرے اہل خانہ نے کراچی کے ایک بڑے اسپتال سے سرجری کروانے کے لئے کہا لیکن خود ہی بچوں نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم حسین کے اسپتال سے کرائیں ۔بہت سے لوگ ڈاکٹر عاصم حسین کو ایک سیاست دان کے طور پر جانتے ہیں۔ انہیں صرف یہ معلوم ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے رہنما ہیں، ان پر بہت سے مقدمات ہیں، انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں اور بہت زیادہ تکالیف برداشت کی ہیں۔ ان پر کرپشن کے بھی الزامات ہیں لیکن بہت کم لوگ ان کے خاندانی پس منظر کے حوالے سے انہیں جانتے ہیں۔ ان کے والدین نے نہ صرف لوگوں کی خدمت کی بلکہ بہت بڑے اداروں کی بنیاد رکھی اور اپنے والدین کے خواب کو پورا کر دکھایا۔ ان کے خاندانی پس منظر کو دیکھتے ہوئے میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے ایک رشتہ نبھایا ہے۔ کچھ حلقوں نے ان کی شخصیت کے اس پہلو، ان کے خاندانی پس منظر اور صحت اور تعلیم کے شعبے میں ان کے خاندان کی خدمات کو محض سیاست کی وجہ سے نظر انداز کر دیا۔ بقول فیض ؔ

اس راہ میں جو سب پر گزرتی ہے وہ گزری

تنہا پس زنداں کبھی رسوا سربازار

یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے بہت صبر کے ساتھ وہ سب کچھ برداشت کیا، جو ان پر بیتا، میرا اس بات پر ایمان ہے کہ ان میں یہ صلاحیت اس لئے پیدا ہوئی کہ وہ ڈاکٹر اعجاز فاطمہ اور ڈاکٹر تجمل حسین جیسی عظیم شخصیات کے صاحبزادے ہیں۔ ہم نے آج کے دور میں گلیمر کے شعبوں سے وابستہ افراد کو اپنا ہیرو بنا لیا ہے اور ہم اپنے اصل ہیروز سے ناواقف ہیں۔ آج کی نسلوں کو ڈاکٹر اعجاز فاطمہ جیسی شخصیات سے آگاہ کرنا چاہئے تاکہ پتہ چل سکے کہ بڑے لوگوں کی صفات کیا ہوتی ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی زندگی کے آخری برسوں میں بہت دکھ جھیلے اور صبر کیا لیکن اپنا مشن ترک نہیں کیا۔

تازہ ترین