اسلام آباد(محمدصالح ظافر…خصوصی تجزیہ نگار)چوہدری نثار نے حزب اختلاف کے ملک دشمن ایجنڈے کی قلعی کھول دی ہے ،تحریک انصاف اور عمران خان اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے پاناما دستاویزات کا ڈھول پیٹنے لگ گئے،حسین نواز اور حسن نواز کے بارے میں کسی بدعنوانی یا بے قاعدگی کا کوئی الزام نہیں پایا جاتا ۔پاناما دستاویزات میں دنیا کے مخصوص ممالک کے سرکردہ افراد جن میں سیاسی اور کاروباری شخصیات شامل ہیں، ہدف بناکر انکشافات کئے گئے ہیں۔ ان میں بعض لوگوں کی ناجائز دولت کی نشاندہی کی گئی ہے ایسے افراد بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں جن کے کاروباری گھپلوں کی تفصیلات ہیں۔ اسی طرح بعض ایسے کاروباری اور تاجر طبقے کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جنہوں نے محض ٹیکس کی مد میں فوائد یکجا کرنے کیلئےوہاں اپنے کاروبار کا اندراج رکھا ہے تاکہ بھاری بھرکم ٹیکس سے خاطر خواہ رعایت حاصل کرسکیں۔ حسن اتفاق سے پاکستان کی جن شخصیات کی نشاندہی ہوئی ہے وہ متذکرہ بالا تمام زمروں میں آتے ہیں تاہم حسین نواز اور حسن نواز کے نام ان کاروباری افراد کے طور پر ان دستاویزات میں ظاہر کئے گئے ہیں جنہوں نے اپنے کاروبار کی وہاں رجسٹریشن کرارکھی ہے، ان کے بارے میں کسی بدعنوانی یا بے قاعدگی کا کوئی الزام نہیں پایا جاتا۔ انکے والد نوازشریف کا نام سرے سے کسی فہرست میں درج ہی نہیں۔ وہ محض ان دونوں کے والد ہونے کی وجہ سے ان تصاویر میں نمایاں کردیئے گئے ہیں جو پاناما دستاویزات نے اپنے شاہکار کے طور پر شائع کی تھیں۔ بلی کے بھاگوں چھیکا ٹوٹا کے مصداق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف جو سیاسی عناصر پاکستان میں ادھار کھائے بیٹھے تھے جن کی قیادت تحریک انصاف اور عمران خان نے سنبھال رکھی ہے۔ اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے پاناما دستاویزات کا ڈھول پیٹنے لگ گئے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بدھ کو ایوان وزیراعظم میں منعقدہ طویل اعلیٰ سطح کے اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے ملک کے کسی ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوجانے سے پہلے ہی خود کو اپنے کنبے سمیت رضاکارانہ طور پراحتساب کیلئے پیش کردیا اور اس مقصد کیلئے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے تحقیقات کرانے اور انصاف فراہم کرنے کی استدعا کردی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف میں شامل ایک گروپ نے اس معاملے کوملک میں ایجی ٹیشن کرانے کیلئے تختہ مشق بنالیا۔ یہ گروپ تحقیقات کے ضمن میں ایک مطالبہ کرتا جسے حکومت منظور کرلیتی تو وہ بلاتوقف دوسرا مطالبہ داغ دیتا، حکومت اسے بھی قبول کرلیتی تو وہ نیا مطالبہ سامنے رکھ دیتا۔ اس سلسلے کا آخری منظر اس ضابطہ کار سے منسلک ہے جو تحقیقاتی کمیشن کیلئے تجویز ہونا ہے ۔ازروئے قانون یہ حکومت کا استحقاق ہےکہ وہ ضابطہ کار مقرر کرے۔ وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق حکومت کے تجویز کردہ ضابطہ کار میں جامعیت موجود ہے اس میں بدعنوانی کی دیگر بڑی اصناف کو بھی تحقیقات کا حصہ بنادیا ہے تاکہ پاناما دستاویزات میں جن لوگوں کے نام بے پناہ دولت رکھنے کے ضمن میں درج ہیں ان کے بارے میں یہ سراغ بھی مل سکے کہ وہ کہیں سرکاری سودوں میں کک بیکس اور کمیشن کے ذریعے اس دولت کے مالک تو نہیں بنے۔ اسی طرح ان کی دولت کہیں اندرون ملک اپنے سیاسی اثر و رسوخ سے بڑے بڑے قرضے معاف کرانے کی بدولت تو حاصل نہیں کی گئی۔ اس سےدرست سوچ کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ دوسری جانب چوہدری نثار علی خان اور ان کے پہلو میں فروکش وفاقی وزیر عدل و انصاف زاہد حامد اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قانونی امور بیرسٹر ظفر اللہ خان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ حزب اختلاف کا تجویز کردہ ضابطہ کار سرے سے ہی ضابطہ کار کی تعریف میں نہیں آتا، اسے ضابطہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔