ایران میں رواں ماہ کی 18تاریخ کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں سات امیدوار حصّہ لے رہے ہیں۔چوں کہ صدر حسن روحانی دو مرتبہ چار سالہ مدّت پوری کرچُکے ہیں، اِس لیے آئین کے مطابق وہ انتخابات میں حصّہ نہیں لے سکتے تھے۔ سو، وہ امیدوار نہیں ہیں۔جن سات امیدواروں کو الیکشن میں حصّہ لینے کی اجازت دی گئی ہے، اُن میں عدلیہ کے سابق سربراہ، ابراہیم رئیسی سب سے زیادہ جانی پہچانی شخصیت ہیں، کیوں کہ وہ2017ء کے صدارتی انتخابات میں 33 فی صد سے زاید ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے تھے۔
اُن کے مقابلے میں صدر روحانی نے، جو اُس وقت اپنی ایک صدارتی مدّت پوری کرچُکے تھے،75 فی صد کے قریب ووٹ لیے تھے۔ دیگر امیدواروں میں سابق جوہری مذاکرات کار، سعید جلیلی، پاسدارانِ انقلاب کے سابق کمانڈر، محسن رضائی، سابق رکن اسمبلی، علی رضا زکانی، امیر حسین قاضی زادے ہاشمی، سابق صوبائی گورنر، محسن مہرالی زادہ اور مرکزی بینک کے سابق گورنر ،عبدالناصر ہیماتی شامل ہیں۔اِن دنوں انتخابی مہم عروج پر ہے۔ گزشتہ انتخابات میں ووٹنگ ٹرن آئوٹ40 فی صد سے کم تھا، اِس لیے امیدوار پولنگ کے دن زیادہ سے زیادہ لوگوں کو گھروں سے باہر نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
ایران کے حالیہ انتخابات کا بنیادی فوکس ایک بار پھر معیشت پر ہے۔گزشتہ پندرہ برسوں میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں یہی ایشو اہمیت کا حامل رہا۔ اِس کی وجہ ایران کی مسلسل گرتی اقتصادی حالت ہے۔ نیوکلیئر ڈیل اور امریکا سے جاری مذاکرات دوسرا اہم ترین معاملہ ہے، جو انتخابی مہم میں ڈسکس ہو رہا ہے۔ ایران کو جوہری معاہدے سے بہت سی اقتصادی رعایتیں ملیں، جو صدر ٹرمپ کے دَور میں اُس وقت ختم ہوگئیں، جب اُنہوں نے امریکا کو اس ڈیل سے الگ کرکے ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں لگا دیں۔گویا اس ایشو کا بھی ایک لحاظ سے معیشت ہی سے تعلق ہے۔
ایران کا سیاسی نظام اور انتخابات کا طریقۂ کار باقی دنیا سے مختلف ہے۔گو کہ ہر بالغ شہری کو بطور امیدوار الیکشن میں حصّہ لینے کا موقع دیا جاتا ہے، لیکن اُنھیں ایک 12 رُکنی کاؤنسل سے کلیئرنس حاصل کرنی ہوتی ہے، جو براہِ راست رہبرِ اعلیٰ کو جواب دہ ہے۔ اس کاؤنسل میں صدارتی امیدوار خود کو رجسٹر کرواتا ہے۔پھر کاؤنسل اُس کے کوائف اور دیگر معاملات اپنے مخصوص اصولوں کے مطابق جانچتی ہے۔ اور پھر جو اُن کے معیار پر پورا اُترے، اُسےہی الیکشن میں حصّہ لینے کی اجازت دی جاتی ہے۔جیسے اِس مرتبہ صرف7 امیدوار ہی کاؤنسل سے اجازت حاصل کر پائے، حالاں کہ590 افراد نے خود کو بطور امیدوار رجسٹر کروایا تھا۔
اِن امیدواروں میں سابق صدر، احمدی نژاد بھی تھے، لیکن وہ کوالیفائی نہ کرسکے۔ اِسی طرح سابق اسپیکر، علی لاری جانی کو بھی انتخابات میں حصّہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ایرانی نظامِ حکومت میں رہبرِ اعلیٰ فیصلہ کُن قوّت کے حامل ہیں، جنہیں’’ سپریم لیڈر ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ اِس وقت آیت اللہ خامنہ ای اس عُہدے پر فائز ہیں۔ ایرانی انقلاب کے بانی، آیت اللہ خمینی مُلک کے پہلے رہبرِ اعلیٰ تھے۔ سپریم لیڈر کی معاونت کے لیے 80 ارکان پر مشتمل ایک رہبر کاؤنسل ہے۔ یہ مُلک کا دوسرا طاقت وَر ترین ادارہ ہے۔ یہ کاؤنسل بوقتِ ضرورت رہبرِ اعلیٰ کا بھی انتخاب کرتی ہے۔
حکومت کے روز مرہّ معاملات چلانے کے لیے صدر کا عُہدہ تخلیق کیا گیا ، جسے عوامی ووٹس سے براہِ راست منتخب کیا جاتا ہے اور اُسی کے ساتھ ایرانی پارلیمان کے ارکان بھی منتخب ہوتے ہیں۔ ایرانی انتخابات میں گزشتہ دس برسوں سے دو اصطلاحات بکثرت استعمال ہو رہی ہیں۔ایک قدامت پسند، جن کا تعلق سخت گیر مذہبی رجحانات رکھنے والوں سے بتایا جاتا ہے۔ وہ امریکا کو خاص طور پر اور باقی دنیا کو عمومی طور پر اپنے مسائل کا ذمّے دار سمجھتے ہیں، اِسی لیے اُنھیں ناپسند بھی کرتے ہیں۔
یہ مشرقِ وسطیٰ میں ایران کی جارحانہ پالیسی کے بھی روحِ رواں مانے جاتے ہیں۔دوسری اصطلاح، اصلاح پسند کی ہے، جنھیں معتدل قرار دیا جاتا ہے۔یہ لوگ سخت گیر پالیسیز کے مخالف ہیں۔صدر روحانی کا اِسی گروپ سے تعلق تھا اور اُنہوں نے ہی عالمی طاقتوں کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل کی تھی، جو اُن کے پہلے انتخابی منشور کا حصّہ تھی۔
اس ڈیل کا مقصد ایرانی معیشت کو بہتر بنانا تھا۔ اُنہیں دونوں مدّتوں کے لیے بھاری تعداد میں ووٹ ملے، جو اُن کی پالیسی کی عوامی پذیرائی کا ایک واضح ثبوت ہے۔ وہ امریکا اور ایران کے درمیان پُل کا کام کرتے رہے۔اُنہی کی حکومت کے آخری دنوں میں سعودی عرب سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے بات چیت شروع ہوئی، جسے ایک بڑا بریک تھرو کہا جا سکتا ہے۔
ابراہیم رئیسی اور دیگر چار امیدواروں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ سخت گیر پالیسی کی حمایت کرتے ہیں۔تاہم، اگر الیکشن مہم سامنے رکھی جائے، تو مُلکی معیشت بہتر بنانا ان سب کے منشور کا بنیادی نقطہ ہے۔ ایک اہم معاملہ ووٹرز کے ٹرن آئوٹ کا بھی مانا جاتا ہے۔یہ دیکھنا ہوگا کہ امیدوار عوام کو اِس بات کا کس حد تک یقین دِلانے میں کام یاب رہے کہ وہ اُن کے مسائل حل کریں گے۔ گو ایرانی معیشت کی کم زوری کی بنیادی وجہ وہ عالمی اقتصادی پابندیاں ہیں، جن کے دبائو نے اُسے بہت پیچھے دھکیل دیا۔
ایران تیل پیدا کرنے والے ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے اور ایک زمانے میں اسے خوش حال مُلک مانا جاتا تھا۔ آٹھ کروڑ سے زاید آبادی کے اس مُلک میں پانچ کروڑ ووٹرز ہیں۔ امریکا اور عالمی طاقتوں کی پابندیوں کے باوجود2015 ء تک اس کی معیشت کسی نہ کسی طرح چل رہی تھی، لیکن اُسی سال تیل کی قیمتیں اچانک گرنا شروع ہو گئیں 150) ڈالرز فی بیرل سے گر کر 30 ڈالرز پر آگئیں(، پھر امریکا میں اس پیمانے پر تیل نکلنے لگا کہ اس کے نزدیک مشرقِ وسطیٰ کی اہمیت ہی ختم ہوگئی۔اب امریکا، سعودی عرب کے برابر تیل پیدا کر رہا ہے۔
ایسے میں محض تیل کی آمدنی پر بجٹ بنانے والے ممالک کے لیے معاشی حالات سنگین ہوتے چلے گئے، جن میں ایران سرِ فہرست تھا۔اسی لیے صدر روحانی نے عالمی طاقتوں سے نیوکلیئر ڈیل کی۔ اس ڈیل کے بعد ایران کی شرحِ نمو دوبارہ12.5 پر جاپہنچی، جو ایک بڑی کام یابی تھی۔تاہم، امریکا کے اِس ڈیل سے نکلنے کے بعد حالات پھر خراب ہو گئے۔ ایرانی معیشت بُری طرح سُکڑ رہی ہے اور منہگائی نے عوام کو شدید مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔
کرنسی قدر کھوتی جا رہی ہے اور بے روز گاری 12فی صد تک جا پہنچی ہے۔کورونا وبا نے صُورتِ حال مزید گمبھیر کر دی۔ظاہر ہے، ایسے میں اگر معیشت پر انتخابات لڑے جا رہے ہیں، تو یہ حالات کا تقاضا ہے۔ مختلف عوامی تجزیوں میں قدامت پرست امیدوار، ابراہیم رئیسی کو فیورٹ مانا جا رہا ہے اور اگر کوئی بڑا اَپ سیٹ نہیں ہوتا، تو بیش تر تجزیہ کار اُن کی کام یابی پر متفّق ہیں۔ اصلاح پسند گروپ کا کہنا ہے کہ اُس کا کوئی بھی امیدوار میدان میں نہیں ہے۔
کورونا وبا اب بھی اپنی تباہ کاریوں کے ساتھ دنیا میں موجود ہے۔کہیں کم، کہیں زیادہ۔پاکستان کی بات کریں، تو یہاں عید کے دنوں میں جزوی لاک ڈائون کے بعد حکومت نے دعویٰ کیا کہ مُلک بھر میں کورونا کا زور ٹوٹ گیا ہے۔وزیرِ اطلاعات، فوّاد چوہدری نے کہا’’ پاکستان نے کورونا کے خلاف جو کام یابیاں حاصل کیں، وہ دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔‘‘ یہ ایک خوش کُن بات ہے، تاہم اِس طرح کے دعووں کی تصدیق عالمی ادارے ہی کرسکتے ہیں۔
دنیا میں کروڑوں افراد اس موذی مرض میں مبتلا ہوئے اور لاکھوں موت کا شکار ہوگئے، لیکن حوصلہ افزا بات یہ رہی کہ آٹھ ماہ سے بھی کم مدّت میں اس سے بچائو کی ویکسینز تیار کر لی گئیں۔امریکا کے تیس کروڑ شہریوں میںسے نصف سے زاید کی ویکسی نیشن ہوچُکی، جب کہ رواں ماہ کے آخر تک تمام شہریوں کو یہ سہولت فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔یاد رہے، وہاں بارہ سال تک کے بچّوں کو بھی ویکسین لگائی جا رہی ہے۔
اُدھر برطانیہ کی تقریباً آدھی آبادی ویکسین لگوا چکی ہے، جب کہ بھارت میں 15 کروڑ افراد یہ سہولت حاصل کر چُکے ہیں۔ پاکستان میں تقریباً ستّر لاکھ افراد کی ویکسی نیشن ہو چُکی ہے اور اب رفتار ڈھائی لاکھ روزانہ تک پہنچ گئی ہے۔
وفاقی وزیر اسد عُمر کا کہنا ہے کہ اِس سال کے آخر تک سات کروڑ افراد کی ویکسی نیشن مکمل ہوجائے گی۔یہ اعداد وشمار اِس لحاظ سے خاصے حوصلہ افزا ہیں کہ ہمارے ہاں ویکسینز سے متعلق طرح طرح کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت سمیت دنیا بھر کے تمام قابلِ ذکر ادارے اور ماہرین ویکسین لگوانے کی نہ صرف حمایت کرتے ہیں، بلکہ اسے اِس وبا کے خلاف واحد مؤثر ذریعہ بھی قرار دیتے ہیں۔ اگر کروڑوں افراد میں سے کچھ کو اس کے سائیڈ ایفیکٹس محسوس ہوئے، تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ویکسین ہی کو مسترد کردیا جائے۔ اچھی بات یہ بھی ہے کہ عالمی اداروں نے اس طرح کے کیسز چُھپانے کی کوشش نہیں کی اور ان کا فوری نوٹس لے کر مزید تحقیق کی جا رہی ہے۔نیز، جہاں عالمی برادری کی بہت سی خرابیوں اور’’ سازشوں‘‘ کا ذکر کیا جاتا ہے، وہیں اُن کی یہ انسانی ہم دَردی بھی ریکارڈ پر لانا ضروری ہے کہ کئی ممالک کورونا سے چھٹکارے کے بعد غریب ممالک کو کروڑوں کی تعداد میں بطور امداد ویکسین فراہم کر رہے ہیں۔
اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ دنیا بہت تیزی سے ویکسین مہم کو کام یاب بنا رہی ہے، کیوں کہ اس سے عوام کو وہ اعتماد حاصل ہو رہا ہے، جو معمول کی زندگی اور کاروبار کے لیے ضروری ہے۔گزشہ عالمی وبائوں کے مقابلے میں کورونا سے ہونے والی اموات کی تعداد بہت کم ہے۔ وگرنہ طاعون، ملیریا اور ٹی بی نے کروڑوں جانیں لیں۔
پاکستان میں ویکسی نیشن کی رفتار اب بھی سُست ہے، شاید ایک فی صد سے بھی کم، جو دنیا میں کم ترین شمار کی جاتی ہے، لیکن اب کروڑوں ویکسینز کے آرڈر دیے جارہے ہیں، جو بہت جلد مُلک میں دست یاب ہوں گی۔ تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں آج بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے، جو اِس غیر معمولی رعایت سے فائدہ اُٹھانے کو تیار نہیں اور اس کے خلاف کہانیوں، افواہوں پر کان دھر رہی ہے۔
کس قدر شرمندگی کی بات ہے کہ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے، جہاں پولیو، ٹی بی اور ملیریا سے نجات حاصل نہیں کی جاسکی۔ ہمیں کورونا کے سلسلے میں یہ غلطی نہیں دُہرانی چاہیے۔عوام میں یہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ ویکسین کے بغیر اِس مرض سے چھٹکارا ممکن نہیں اور ویکسین نہ لگوانے والوں کو مستقبل میں کئی طرح کی سفری مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔نیز، یہ بھی ممکن ہے کہ آج مفت لگنے والی ویکسین، کل منہگے داموں خرید کر لگوانی پڑے۔