• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے اس پر آشوب دور میں جب تحقیق اور مواد کو افراد کے من پسند بلکہ حکمرانوں کے من پسند نتائج اور تناظر کو اخذ کرنے لئے استعمال کیا جا رہا ہے، اس ضمن میں پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس کے ڈرافٹ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دورکو واپس لانے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ممالک میں ابلاغ عامہ کے راستے میں سب سے زیادہ رکاوٹیں ریاست اور معاشرے کا مخصوس سماجی ڈھانچہ ہی پیدا کررہا ہے ۔ وہ کسی ایسے بیانیے کی اجازت نہیں دیتا جس سے حکمرانوں کی عوام پر گرفت متاثر ہوتی ہو۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ سماجی و سیاسی ارتقاء حکمرانوں کے فرمانوں اور اس کے دبائو کو مستر د کرکے درست حقائق کی نشاندہی کے بعد ہی حاصل کیا جا سکتاہے۔آزادیٔ صحافت جمہوری نظام کا ایک لازمی جزو ہے، اس لئے آئین پاکستان کے آرٹیکل 19کے تحت یہ عوام کا بنیادی حق ہے ،جس کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں اور سول سو سائٹی کی تنظیمیں عوام کے اس حق کو تسلیم کرانے میں بنیادی کردار ادا کرتی رہی ہیں۔

دنیا بھر میں ریاست کے ادارے نے وجود میں آنے کے بعدہی معلومات اور انفارمیشن پر اجارہ داری قائم کرنا شروع کر دی ۔ پاکستان میں اس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب حکومت نے قائد اعظم محمد علی جناح ، گورنر جنرل آف پاکستان کی 11اگست 1947والی تقریر کی اشاعت پر پابندی لگا دی۔ فوجی آمروں کے دور میں یہ سختیاں اور بڑھ گئیں ۔ صرف وہ خبریں عوام تک پہنچائی گئیں جو حکومت کے حق میں ہوں۔ چنانچہ ایوب خان ، یحییٰ خان اور ضیاءالحق کی حکمرانی میں صحافت اپنے بد ترین ادوار سے گزری۔ ایوب خان نے ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی ہند کے نافذ کردہ قوانین کو پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس 1963میں ضم کر دیا۔ ضیاءالحق نے کچھ صحافیوں کو سر عام کوڑے بھی مارے۔اس کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں نے ابلاغ پر کنٹرول کے لئے دوسرے ذرائع بھی استعمال کیے۔ صحافیوں کے قومی جذبات اور مذہبی تعصبات کو ابھار کر ان سے اپنے حق میں لکھوایا ، اپنے مخصوص لوگوں کو ملازمتیںدلوائیں ، مخالف سیاسی شخصیات کے کردار کو مسخ کروایا، خان عبدالغفار خان، شیخ مجیب الرحمٰن ، فاطمہ جناح ، غوث بخش بزنجو، جی ایم سید اور دوسرے رہنمائوں کو غدار قرار دلوایا۔ یہ سلسلہ جو اس سے پہلے بلوچستان ، سندھ اور کے پی کے تک محدود تھا، عمران خان کی حکومت کے دور میں پنجاب تک پہنچ گیا اور اب حکومت پر تنقید کرنے والے پنجابی بھی بیرونی طاقتوں کے کارندے اور عوام دشمن قرار دئیے جا رہے ہیں۔اگر آپ تحریک انصاف کا منشور اور اس میں شامل میڈیا پالیسی کا موازنہ اس آرڈیننس سے کریں تو اس میں زمین اور آسمان کا فرق صاف نظر آتا ہے۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہ مسودہ تحریک انصاف کو تھمایا گیا ہے۔ دراصل میڈیا پر قدغن لگانے کا یہ سلسلہ 2007ء میں ہی شروع ہو گیا تھا۔پھر مسلم لیگ ن کی حکومت میں ایک ایسا ہی مسودہ پیش کرنے پر جوائنٹ سیکرٹری کو بھی معطل کیا گیا تھا۔ آج اس قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کامقصد دراصل سماج میں اس بیانیے کاقلع قمع کرنا مقصود ہے جس کے ذریعے عوام میں آئین کی پاسداری اور سویلین سپرمیسی کا بیانیہ سماج میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے۔

اس آرڈیننس کے دائرہ کار میں ابلاغ کے سارے ذرائع ، پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز شامل ہیں یعنی کہ ایک عام آدمی بھی فیس بک یا کسی اور پلیٹ فارم پر کوئی پوسٹ لگائے گا تو یہ آرڈیننس اس کا بھی احتساب کر سکے گا۔ اس سلسلے میں خوش آئند بات یہ ہے کہ میڈیا، وکلاء اور انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والی تمام تنظیموں نے نہ صرف اس مسودہ قانون کو مسترد کر دیا ہے بلکہ اس کو سیاہ قانون اور میڈیا پر مارشل لا کا تسلط قرار دیا ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی سیاسی پارٹیاں بھی اس مشترکہ جدوجہد کا حصہ بنیں گی۔یہ مسودہ قانون اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے آرٹیکل 19اور آئین پاکستان کے بھی آرٹیکل 19کی خلاف ورزی ہے۔اس آرڈیننس نے جہاں عام آدمی کی آواز کو نہ صرف دبانے کی کوشش کی ہے بلکہ ایک ایسا میڈیا ٹریبونل تشکیل دیا ہے جو نہ صرف تین سال تک سزااور اڑھائی کروڑ روپےتک کے جرمانے کا نفاذ کر سکے گا بلکہ اس کے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹس کو بھی اپیل سننے کا اختیار نہ ہوگا ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک عام آدمی کو اب اس ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف اپیل کی رسائی کیسے حاصل ہوگی ۔ یوں مبصرین یہ بات کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ آرڈیننس نو آبادیاتی دور کا ایک ہتھیار ہے اور اس کا چیئرمین جو کہ وفاقی حکومت کامقرر کردہ گریڈ اکیس یا بائیس کا بیوروکریٹ ہو گا ، دراصل مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات سے لیس ہوگا۔ یہ ادارہ ایسے مواد کے شائع کرنے یا نشر کرنے کے خلاف بھی کارروائی کر سکے گا جو نظریہ پاکستان اور ، قومی سلامتی کیخلاف ہو یا کسی قسم کی فحاشی پھیلانے کا مرتکب ہو ۔

تحریک انصا ف کی حکومت اپنے قیا م سے لے کر اب تک میڈیا بحرانوں اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کی پالیسیوں پر کار بند ہے لیکن اس کے خلاف پاکستان بھر کی تمام صحافی ، وکلاء اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے 17جون کو ایک قومی کنونشن کے اسلام آباد میں انعقاد کا اعلان کیا ہے جس میں سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا جا رہا ہے تا کہ ایک مشترکہ جدوجہد کا اعلان کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ آزاد میڈیا کے بغیر سیاسی شعور اور جمہوری ارتقاکسی بھی سماج میں نا ممکن ہے ۔ اس لئے آج وقت کی اہم ضرورت ہے کہ سول سوسائٹی کے تمام ادارے آزادی اظہار کے اس بنیادی حق کے لئے متحد ہو جائیں ۔

تازہ ترین