• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سات جون 2021کی صبح سویرے پاکستان، صوبہ سندھ کے علاقے ڈہرکی کے قریب ملت ایکسپریس اور سر سید ایکسپریس میں خوفناک تصادم ہوا۔ تا دمِ تحریر 65افراد شہید اور300سے زائد مسافر زخمی ہو چکے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کس کی نااہلی اور غفلت کی بنا پر اتنا بڑا جانی و مالی نقصان ہوا ہے؟کوئی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار ہی نہیں ۔پاکستان میں اس طرح کے حادثات معمول بن چکے ہیں۔یہ چند سال پہلے کی بات ہے۔ ہم بذریعہ ہائی وے ملتان جارہے تھے۔ صادق آباد کے قریب ایک ٹوڈی کار خطرناک اور المناک حادثے کا شکار نظر آئی۔ معلوم ہوا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والی یہ فیملی گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کیلئے کراچی گئی تھی۔ ایک ماہ بعد واپس آرہے تھے کہ رانگ سائیڈ سے آنے والا سامان سے لدا ایک دیوہیکل ٹرالر اس کار کے اوپر چڑھ گیا۔ پوری گاڑی پچک گئی۔ کار میں سوار میاں بیوی اور ان کے تینوں بچے موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔ موت کا یہ خوفناک منظر دیکھ کر ہر شخص آبدیدہ تھا، اور سوچ رہا تھا کہ ٹرالر کے اس نشیٔ ڈرائیور کی ذرا سی غفلت اور کوتاہی نے پوری فیملی کو موت کی نیند سلادیا۔ کاش! ایسا نہ ہوتا۔ یہ تو ایک حادثہ ہے۔ اس طرح کے حادثات روزانہ کا معمول بن چکے ہیں۔ پاکستان حادثوں کی عالمی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ملک میں سالانہ 4سے 5ہزار لوگ حادثوں میں جان سے گزر جاتے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد اس سے 3گنا زیادہ ہوتی ہے۔ ہم اگر دردِ دل سے دیکھیں تو یہ زخمی ہلاک ہونے والوں کے مقابلے میں زیادہ اذیت سے گزرتے ہیں۔

کسی دن کوئی اخبار اٹھائیے اور مارکر کے ساتھ اس اخبار میں حادثوں کی خبروں کو سرکل کرنا شروع کیجیے۔ اخبار پر سرکل ہی سرکل ہوں گے۔ یہ اس دن ہونے والے حادثوں کی صرف 10فیصد خبریں ہوں گی، کیونکہ اخبارات تک صرف 10فیصد خبریں پہنچتی ہیں۔ 90 فیصد خبریں سڑک، اسپتال اور قبرستان تک محدود ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں کئی برسوں سے ہر ہفتے کوئی ایسا حادثہ پیش آتا ہے جس میں 50، 60 لوگ مارے جاتے ہیں۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں اتنے بڑے بڑے حادثوں کے بعد حکومتیں بدل جاتی ہیں، جبکہ ہمارے ملک میں مجرموں کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں ہوتی۔ پاکستان میں کسی حادثے کے بعد کوئی موٹر ساز ادارہ، کوئی ٹرانسپورٹ کمپنی بند ہوتی نظر نہیں آئے گی۔ آپ حادثے کا موجب بننے والے کسی شخص کو عدالت سے سزا پاتے بھی نہیں دیکھیں گے، کیونکہ ہماری حکومتیں، ہماری ریاست بے حس ہے۔ ہم آج بھی حادثے کو امر ربی اور مرنے اور زخمی ہونے والے کا نصیب سمجھ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں گاڑی میں آگ بجھانے کے آلات، ٹارچ، اندھیرے میں چمکنے والی جیکٹ اور دور سے نظر آنے والا اسٹینڈ لازم ہوتا ہے۔ آپ سڑک پر ٹائر بدلنا چاہتے ہیں تو آپ پہلے سڑک پر اسٹینڈ کھڑا کریں گے۔ یہ اسٹینڈ دور سے آنے والی گاڑیوں کو آگاہ کرتا ہے، آپ کے راستے میں خراب گاڑی کھڑی ہے۔ آپ اس کے بعد دور سے نظر آنے والی جیکٹ پہنتے ہیں، تا کہ آپ دوسرے ڈرائیوروں کو نظر آ سکیں۔ یورپ میں بڑے ٹرکوں، ٹرالرز اور آئل ٹینکرز کے لیے خصوصی حفاظتی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ پولیس جب تک ان انتظامات سے مطمئن نہ ہو جائے یہ گاڑیاں سڑک پر نہیں آتیں، لیکن آپ پاکستان میں خواہ کھلے ٹینکر میں پیٹرول بھر کر سڑک پر آجائیں، آپ کو کوئی نہیں روکے گا۔

یہاں حالت یہ ہے کہ کوئی بھی شخص 40سال پرانی گاڑی لے کر بھی موٹروے پر آ سکتا ہے۔ ملک کی کسی سڑک پر کوئی مسافر بس یا وین روک کر چیک کرلیں، اس میں آگ بجھانے والے آلات سے لے کر فرسٹ ایڈ تک کوئی حفاظتی بندوبست نہیں ملے گا۔ آپ کسی ٹینکر کو چیک کرلیں، آپ اسے خطرناک پائیں گے۔ آپ کو ہائی ویز پراسپتال، ایمبولینس اور فائر بریگیڈ بھی نہیں ملتا۔ کہتے ہیں انگریز کے دور میں فائربریگیڈ، ایمبولینس اوراسپتال ہمیشہ مین روڈ پر بنائے جاتے تھے۔ یہ 24گھنٹے آپریشنل بھی ہوتے تھے، لیکن آج آپ کو یہ آپریشنل ملتے ہیں اور نہ ہی ’’مین روڈ‘‘ پر۔ ہمارے ملک میں کتنی گاڑیاں ہیں؟ ریاست کو معلوم نہیں۔ گاڑیوں کی مرمت کیسی ہے؟ ریاست کو یہ بھی معلوم نہیں اور کیا گاڑیاں چلانے والوں کے پاس لائسنس بھی ہیں؟ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں، چنانچہ ہم میں سے کون، کب، کہاں اور کس گاڑی کی زد میں آ جائے ہم نہیں جانتے اور بائی روڈ سفر کرتے ہوئے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ صحیح سلامت گھر پہنچیں گے بھی کہ نہیں؟ نشیٔ اور اَناڑی ڈرائیوروں کی وجہ سے خوشگوار سفر بھی موت کا سفر بن جاتا ہے۔ہر بڑے حادثے کے بعد قومی سطح پر ایک وقتی ہلچل سی مچتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے۔ چند ہی دنوں بعد سسٹم اسی طرح رواں دواں ہو جاتا ہے۔

اگر ہم بحیثیت قوم حادثات کی شرح کم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سارے اصولوں اور ضابطوں کو اپنانا ہو گا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ بیشتر خوفناک حادثے روکے جا سکتے ہیں۔ جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ تباہ حال خاندانوں کے جان لیوا عذابوں کو ٹالا جا سکتا ہے۔ ہمیں درست ڈائریکشن میں چلنا ہو گا تاکہ ہماری سڑکیں مقتل گاہ بن کر نہ رہ جائیں۔ ہمارا ہر سفر موت کی شاہراہ سے ہو کر نہ نکلتا ہو۔ ہم حادثوں کے ان سارے بڑے بڑے اسباب کو دور کر کے حادثوں میں کئی گنا کمی کر سکتے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام حادثات میں مرنے والوں کی کامل مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو جلد صحت عطا فرمائے۔ قارئین سے بھی دعاؤں کی درخواست ہے۔

تازہ ترین